مسلہ کشمیر ، انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیاں اور اقوام عالم کے فرائض
خصوصی مضمون ۔۔محمدارشد عطاء(نیویارک)
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ روئے زمین پر اس وقت جو قوم سب سے زیادہ مظلوم ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے مظلوم و محکوم کشمیری عوام ہیں کہ جنہیںبھارت کے ریاستی جبر و تشدد کا سامنا کرتے ہوئے سات سے زائد دہائیوں کا عرصہ گذرگیا ہے
آج کی صدی میں اس بات کا پرچار عام ہے کہ ہم ایک آزاد ریاست کے باسی ہیں ۔ہر ایک کی زبان اس بات کا ڈنکا کرتی سنائی دیتی ہے لیکن کیا ایسا ہے؟لیکن میرے یہی الفاظ کسی کشمیری بہن بھائی سے ہوں تو کیا اس کا جواب بھی ہاں یا ناں میں ہوگا؟یقیناً نہیں ۔
وطن عزیز ، پاکستان کو آزاد ہوئے ، آج 75سال ہو گئے اور ہر پاکستانی اپنے آپ کو پاکستانی کہتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہے۔آج بھی کشمیری عوام کسی محمد بن قاسم جیسے لیڈر کا انتظار کررہے ہیں کہ جو مظلوموں کی فریاد پر لبیک کہتے ہوئے ، آئے اور انہیں ان کے بنیادی حقوق دلوائے اور 5سالہ غلامی کے طوق سے نجات دلائے اور وادی کشمیر میں آزادی کے سورج کے طلوع ہونے میں اپنا کردار ادا کرے۔
بقول شاعر۔۔۔۔
عطاءہوئی ہے تیرے دم سے ظلمتوں کو روشنی
تمہارے سوز و قلب سے گلوں نے پائی تازگی
جہاں تمہارا خون گرا وہاں چمن کھلے
ہزار آفتاب اٹھے ہوئی جہاں میں روشنی
کشمیر کے مسائل میرے احاطہ قلم میں نہیں آتے ۔اگر یہ کہا جائے کہ روئے زمین پر اس وقت جو قوم سب سے زیادہ مظلوم ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے مظلوم و محکوم کشمیری عوام ہیں کہ جنہیںبھارت کے ریاستی جبر و تشدد کا سامنا کرتے ہوئے سات سے زائد دہائیوں کا عرصہ گذرگیا ہے، ان پر عرصہ حیات ہر لمحہ تنگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن سلام ہے ان عظیم کشمیریوں کو کہ جنہوں نے حق و سچ پر مبنی اپنا موقف تبدیل نہیں کیا۔
بھارتی تسلط میں مقبوضہ کشمیر کہ جہاں تقریباً دس لاکھ بھارتی ملٹری اور پیرا ملٹری فورسز دہائیوں سے تعینات ہیں ،کی وادی میں موجودگی از خود ، انسانی حقوق کی بڑی خلاف ورزی ہے اور پھر ان فورسز کی جانب سے جاری ریاستی تشدد نے انسانی حقوق کی پامالیوں کی بدترین اور سیاہ ترین تاریخ رقم کر دی ہے ۔
انسانی حقوق کا دن دنیا بھر میں 10دسمبر کو منایا جاتا ہے ۔ اس تاریخ کے انتخاب کا مقصد 10دسمبر 1949کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے توثیق کردہ انسانی حقوق کا آفاقی منشور ہے (جسے یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومین رائٹس کہا جاتا ہے)کی یاد تازہ کرتا ہے اور دنیا کی توجہ اس طرف مبذول کرواتا ہے
آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور
کل جسے کہتے تھے ایراں صغیر
کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ مانا جاتا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے جب 1947میں انسانیت کی بے حرمتی ، بے جا ظلم و ستم، قانونی حقوق کی خلاف ورزی اور زیادتیوں آج بھی انڈین آرمی کی طرف سے جموں و کشمیر میں جاری و ساری ہیں ۔بھارت نے عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کی خلا ف ورزی کرتے ہوئے کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کرکے پہلے سے جیل کی صورت اختیار کی ہوئی وادی کشمیری میں اپنے ظلم و ستم کے سلسلوں کو بڑھا دیا ہے۔ یہ ظلم و ستم ایسے وقت پر برپا کیا جا رہا ہے کہ جب پوری دنیا بلکہ پوری انسانیت کو کورونا وائرس وبا کا مسلہ درپیش ہے ۔بنیادی انسانی حقوق سے محروم کشمیری عوام کو گھروں میں قید کرکے رکھ دیا ہے اور وادی میں کرفیو کی صورتحال ایک سال سے زائد عرصے سے جاری ہے ۔
کشمیری برادری کو غلامی اور ظلم و ستم کی چکی میں پستے ہوئے 75سال ہو گئے ہیں ، اس ظلم و ست کے خلاف کیوں کوئی با اثرآواز نہیں اٹھائی جاتی ۔
ہم حال ہی میں اقوام متحدہ کے پانچ انسانی حقوق کے ماہرین کے طرف سے بھارتی حکومت کے نام خط کا خیر مقدم کرتے ہیں جس میں ماہرین کا کہنا ہے کہ جن انسانی حقوق کی پامالیوںکی صورتحال کو سنگین قرار دیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے اقلیتوں کے امور ، اظہار رائے کے حقوق کے تحفظ ، پر امن اجتماع کے حق ، نسل پرستی و نسلی امتیاز اور مذہبی آزاد ی کے حوالے سے کام کرنے والے پانچ ریپوریٹر ز نے بھارتی حکومت کے نام اپنے خط میں اس بات پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے کہ حکومت کی طرف سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے اور ڈومیسائل قوانین میں تبدیلی سے مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کے حقوق پر نہایت منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
بھارت کی مودی حکومت جموں و کشمیر کے مسلمانوں کے وجود کے خلاف سازشوں کے طعنے بانے بننے میں مصروف ہے اور وہ مقبوضہ جموں وکشمیر کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر کے اسے مکمل طور پر ایک ہندو ریاست بنانا چاہتی ہے۔ہم مقبوضہ جموں وکشمیر میں رونما ہونے والے واقعات کو درست انداز میں رپورٹ کرنے والے صحافیوں کے خلاف بھارتی حکومت کی تازہ ترین پابندیوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے صحافیوں کے حقوق کی بین الاقوامی تنظیم جرنلسٹ ود آوٹ باڈرز اور دوسرے اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے صحافیوں اور صحافتی اداروں پر ناروہ پابندیوں اور صحافیوں کے جان و مال کو لاحق خطرات کے خلاف اپنی آواز بلند کریں۔
کشمیرکی سرحد پر انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنائی جاتی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کی عوام اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑی ہے
روتی نہیں کبھی بھی شہید سے لپٹ کر
یہ حوصلہ میرے کشمیر کی ماو¿ں کا ہے
اگر قوم شعور کی بلندیوں پر فائز ہو تو اس مسلہ میں بہتری آسکتی ہے مگر برادریوں کے مارے ہوئے، مفادات پرست لوگوں سے امید ِ بہار رکھنا ، احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے ۔ صحیح شعور اور آگاہی کے لئے فرسودہ نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے ۔
قرآنی و دینوی معاشرت کے نفاذ کی عملی جدوجہد کو عوام کے ذہن میں پروان چڑھانے کی اشد ضرورت ہے ۔اس وطن کی در و دیوار سے ہمیں پیار ہے اور اس کی خدمت ہماری عظمت اور اس کی حفاظت ہمارا ایمان ہے اور اس کے لئے قربان ہونا ہماری شہادت
خواب آنکھوں میں سلامت رہیں تعبیر کی خیر
میرے مولا میرے مالک میرے کشمیر کی خیر
(نوٹ؛ مضمون نویس محمد ارشد عطاء، پاکستان پیپلز پارٹی یو ایس اے ، ہیومین رائٹس ونگ نیویارک کے پریذیڈنٹ ہیں )