پاکستان

پاکستان اب امریکا کے ساتھ سیکیورٹی اسٹیٹ کے بجائے ایک بزنس پارٹنر کے طور پر تعلقات چاہتا ہے،علی جہانگیرکا ڈان نیوز کو انٹرویو

سوال: آپ کا پروفیشنل سفر بطور ایک سرمایہ کار اور بینکار کے ہے۔ ایسے میں آپ کس طرح امریکی انتظامیہ سے ڈیل کر پائیں گے؟

جواب: علی جہانگیر کا کہنا تھا کہ یہاں ابلاغ ایک مشکل کام ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ میں شامل افراد پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر اعلی عہدیداران کا تعلق کاروبار یا سرمایہ کار بینکاری سے ہے جو جلد از جلد کوئی ڈیل چاہتے ہیں اور ماضی کی باتوں کے غلام نہیں ہوتے ہیں۔

امریکا میں داخلی اور خارجی 2 محاذ ہیں۔ خارجی محاذ پر پاکستان کی کوشش ہوگی کہ امریکا کے ساتھ بطور پاکستان ڈیل کیا جائے۔ پاکستان کو امریکا کی بھارت سے متعلق پالیسی کے تناظر میں نہ دیکھا جائے۔ امریکا کے بھارت سے کیا تعلقات ہیں اور وہ بھارت کو کیا کردار دینا چاہتا ہے اس سے ہٹ کر امریکا کو پاکستان سے الگ ڈیل کرنی چائیے، اور امریکی حکام کو اس جانب لانا ایک چیلنج ہوگا۔

دوسری طرف امریکا میں داخلی محاذ پر مقامی صنعتوں کے قیام، نوکریوں کی واپسی اور امریکی مارکیٹ کو تحفظ دینا ہے۔ امریکی حکومت آزاد طریقہ کار اپنانے کے بجائے مقامی صنعت کو تحفظ دینے یا پروٹیکشن ازم کی جانب بڑھ رہی ہے۔ امریکا چین کے ساتھ تجارتی جنگ کو آگے بڑھا رہا ہے اور اس بات کا امکان موجود ہے کہ امریکا چین پر تجارتی پابندیاں یا درآمدات پر ٹیرف کی پابندیاں اور ڈیوٹی عائد کردے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ یقیناً ایشیائی ملکوں کے لیے خطرناک ہوگا۔ اگر چین کی معیشت متاثر ہوئی تو ایشیاء کے ساتھ ساتھ پاکستان کی معیشت بھی متاثر ہوگی اور یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ امریکا چین کے ساتھ ساتھ دیگر ملکوں پر بھی ٹیرف عائد کردے۔

سوال: پاک-امریکا تجارتی تعلقات سے متعلق کچھ سوچا ہے آپ نے؟

جواب: پاکستان اور امریکا کے تجارتی تعلقات پر علی جہانگیر کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان تجارت میں تجارتی توازن پاکستان کے حق میں ہے اور پاکستان سالانہ 6 ارب ڈالر امریکا سے کما رہا ہے اور یہ کوشش کی جائے گی کہ 6 ارب ڈالر کی تجارت کو 10 ارب ڈالر تک لے جایا جائے۔

مگر دوسرے ہی سانس میں علی جہانگیر کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں کاروبار کا ماڈل تبدیل ہورہا ہے۔ سعودی عرب اور امارات کے سرمایہ کار اب امریکا میں سرمایہ کاری کررہے ہیں اور یہ سرمایہ کاری ایسے سینیٹرز اور کانگریس اراکین کے حلقہ انتخاب میں ہورہی ہے جن کی وہاں خارجہ پالیسی اور اندرونی پالیسی میں بہت اہمیت ہے، اور اس سرمایہ کاری کے ذریعے وہ پالیسیوں کی تبدیلی یا اپنے حق میں تسلسل کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔

علی جہانگیر کے مطابق پاکستان کو اپنی مصنوعات امریکا میں فروخت کرنے کے بجائے امریکا میں سرمایہ کاری کرنے پر بھی توجہ دینا ہوگی۔ بطور سفیر چارج سنبھالنے کے بعد تجارت اور سرمایہ کاری کا ایجنڈہ سرِفہرست ہوگا اور کوشش کی جائے گی کہ ویلیو ایڈیشن اور مارکیٹنگ کے ذریعے پاکستانی تجارت کو بڑھایا جائے۔ ایسے برآمد کنندہ گان جو پہلے ہی امریکا میں تجارت کرر ہے ہیں اور جن کے پاس تمام طرح کے اجازت نامے موجود ہیں انہیں امریکا میں مارکیٹنگ کے لیے بلایا جائے گا۔ اس کے بعد ایسے برآمد کنندہ گان کو شامل کیا جائے گا جو امریکا میں برآمد کرنے کی صلاحیت اور اہلیت رکھتے ہیں۔

سوال: حکومت میں چند ماہ کا تجربہ کیسا رہا؟

جواب: حکومت میں چند ماہ کے تجربے کے بارے میں علی جہانگیر کا کہنا تھا کہ جب وزیرِاعظم کا مشیر بننے کی پیشکش ہوئی تو سب نے کہا کہ زندگی اجیرن ہوجائے گی۔ ٹانگیں کھینچی جائیں گی اور ایک ایک دستخط پر نیب کے کیس بنائے جائیں گے، جو اب بن بھی رہے ہیں، مگر کوشش تھی کہ کسی بھی طرح ملک کے کام آسکوں۔

علی جہانگیر نے کہا کہ حکومت میں آکر پتہ چلا کہ وزارتوں کے حوالے سے وسیع البنیاد اصلاحات کی ضرورت ہے۔ صنعتوں کی پالیسی بنانا وزارتِ پیداوار و صنعت کا کام ہے جبکہ برآمدت میں اضافہ کرنا وزارت تجارت کا کام ہے۔ پاکستان میں تحریر کردہ صنعتی پالیسی محض صنعت کے لیے ہے نہ کہ برآمدی صنعت کی پالیسی ہو۔ جبکہ صنعتی پالیسی کو برآمدی صنعتی پالیسی ہونا چاہیئے۔

سفارت کاری کے تجربے پر علی جہانگیر کا کہنا تھا کہ انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور ورلڈ اکنامک فورم میں وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی کی معاونت کی جبکہ اسلامی تعاون تنظیم میں سابق وزیرِ خارجہ خواجہ آصف کی ٹیم کا حصہ بھی رہے اور یہی کچھ ان کا سفارت کاری کا تجربہ ہے۔

سوال:وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی سے تعلقات کے بارے میں کچھ بتائیے؟

جواب: علی جہانگیر کا کہنا تھا کہ ان کی مسلم لیگ (ن) میں وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی سے اس وقت ملاقات ہوئی جب وہ مشرف دور میں جیل سے نکل کر اپنی ایئرلائن شروع کر رہے تھے۔ شاہد خاقان عباسی میرے سیاسی منٹور (پیر) ہیں۔ خاقان عباسی صاحب ایک سادہ طبع اور شریف النفس انسان ہیں۔ جیسی ان کی تصاویر سوشل میڈیا پر آتی ہیں۔ اسی طرح ہی ان کی زندگی سادہ ہے۔ وہ اپنے گھر میں ملازمین کے ساتھ بہت ہی نرمی اور شفقت سے پیش آتے ہیں۔

علی جہانگیر کی باتوں سے اندازہ ہوا کہ وہ پاک امریکا تعلقات میں فوجی اور علاقائی تعاون سے زیادہ امریکا کے ساتھ تجارتی، صنعتی اور کاورباری تعلقات کو قائم کرنے کی کوشش کریں گے اور اس مقصد کے لیے پاکستان کو زیادہ سے زیادہ فائدہ دلوانے کی کوشش کریں گے۔ ان کی نظر میں امریکی حکام سے کوئی بھی بات کرنا ایک کاروباری لین دین کی طرح ہی ہوگی اور اسی تناظر میں سب کام ہوں گے۔

کسی کہنہ مشق، تجربہ کار اور جہاندیدہ بیورکریٹ یا سیاستدان کے بجائے ایک نوجوان، نو آموز فرد کی امریکا میں سفیر تعیناتی امریکا کے لیے بھی پیغام ہوسکتی ہے کہ چین اور روس سے تعلقات بہتر ہونے کے بعد اب پاکستان خارجہ کی سطح پر امریکا کا محتاج نہیں رہا ہے اور پاکستان اب امریکا کے ساتھ سیکیورٹی اسٹیٹ کے بجائے ایک بزنس پارٹنر کے طور پر تعلقات چاہتا ہے۔ سی پیک کے بعد پاکستان کی بڑھتی ہوئی معیشت میں امریکی کمپنیوں کے لیے بھی ترقی کی گنجائش موجود ہے۔

پاکستان اور امریکا تعلقات کس ڈگر پر جاتے ہیں اس حوالے سے کوئی بھی بات کرنا قبل از وقت ہے اور ان پیچیدہ حالات میں علی جہانگیر کس قدر امریکی حکام پر اثر انداز ہو پائیں گے؟ اور کیا وہ پاکستان کا موقف درست طور پر بیان کرنے میں کامیاب ہوپائیں گے؟ اس سوال کا جواب تو وقت ہی دے سکے گا۔ بہرحال بطورِ پاکستانی میں ان کی کامیابی کے لیے دعاگو ہوں کیونکہ اگر وہ ناکام ہوئے تو پاکستان ناکام ہوگا۔

0بشکرءیہ ڈان نیوز، https://www.dawnnews.tv/news/1078607/

Related Articles

Back to top button