جو بائیڈن کی فتح، امریکہ ، پاکستان اور بین الاقوامی تعلقات میں مثبت تبدیلی کا پیش خیمہ
خصوصی مضمون ۔۔۔فرینک اسلام (واشنگٹن ڈی سی )
کئی ماہ کی لفظی جنگ اور84گھنٹوں کی تھکا دینے والی ووٹوں کی گنتی کے بعد بالاخر جوزف آربائیڈن جونیئر کو امریکہ کا 45واں منتخب صدر قرار دے دیا گیاہے جو 20جنوری کو اس عہدے کا باقاعدہ چارج سنبھالیں گے۔امریکی جمہوریت میں ہر چار سال بعد ہونے والے قسمت کے اس ہیر پھیرمیں اس مرتبہ وہی ہوا جس کا بہت سے لوگوں نے اندیشہ ظاہر کیاتھاکہ انتخابی نتائج امریکہ کو مزید تقسیم کی راہ پر ڈال سکتے ہیں اورمقابلہ توقعات کے برعکس کافی سخت ہوگا۔ جو بائیڈن کی یکطرفہ فتح کی آس لگانے اور انتخابات سے قبل ہونے والے پولز کے مطابق نتائج کی توقع رکھنے والوں کو بہرحال اس مرتبہ مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ امریکہ ووٹرز کے رحجان سے جوواضح پیغام سامنے آیاہے کہ وہ کچھ تو امیدافزائ ہے اورکچھ کو حوصلہ افزاء قرار نہیں دیاجاسکتا۔ سب سے پہلے اوراہم ترین تو یہ ہے کہ یہ انتخاب ہارنے کے بعد ڈونالڈ ٹرمپ واحد ٹرم نبھانے والے چوتھے امریکی صدر بن گئے ہیں اور دور جدید میں امریکی قوم کو تقسیم کرنے والے اس صدر کی شکست سے بہرحال امریکی قوم کو فائدہ ہوگا۔دوسرا مثبت اشارہ امریکہ کی جمہوریت کیلئے کمٹمنٹ ہے جہاں امریکی ووٹرز کے دو تہائی سے زائدتقریباً 16کروڑ لوگوں نے گذشتہ ایک سو سال کی بدترین عالمی وباءکے باوجود ووٹ کاسٹ کئےجو کہ ایک صدی میں ووٹ ڈالنے کی سب سے زیادہ شرح کا نیا ریکارڈ ہے۔جو بائیڈن کی فتح امریکی معاشرہ میں مثبت تبدیلی کا سبب بننے کی امید کی جارہی ہے اوریہی مثبت تبدیلی امریکہ کی طرف سے دنیا بالخصوص جنوبی ایشیاءاورپاکستان کیلئے بھی ہوسکتی ہے۔میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ جو بائیڈن کی قیادت میں ایک عشرہ قبل آنے والے عالمی مالیاتی بحران سے نمٹنے کیلئے امریکہ نے کلیدی کردار ادا کیاتھا جس سے امریکہ کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کی معیشت کو سنبھالا دینے میں مدد ملی تھی اوراب بھی یہ امید کی جاسکتی ہے کہ کووڈ19کی عالمی وباءکے سبب عالمی معیشت کی بحالی میں وہ اہم کردار ادا کرنے کیلئے اپنی صلاحیتیں بروئے کار لائیں گے۔ یہ جوبائیڈن کیلئے کڑا امتحان ہوگا کیونکہ ڈونالڈ ٹرمپ کی امریکہ کو تنہائی کی طرف لے جانے والی تباہ کرن پالیسیوں اورملکی و بین الاقوامی معاملات میں غیر سنجیدہ طرزعمل نئے امریکی صدر کیلئے مشکلات کا سبب ہوگا۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی سب سے پہلے امریکہ کی پالیسی نے امریکہ کو کئی بین الاقوامی سمجھوتوں اورتجارتی معاہدوں سے الگ کردیا تھااوریہ سب کچھ امریکی معیشت پر اس کے دوررس منفی اثرات دیکھے بغیر اورامریکہ کے عالمی کردار کو پس پشت ڈالتے ہوئے کیاگیاتھا۔صدر ٹرمپ نے امریکی معاشرت تنوع اورکثیرالجہتی ثقافتی ورثہ کو نقصان پہنچاتے ہوئے نسلی بنیادوں پر اپنے سپورٹرز کو خوش کرنے کی کوشش کی اور اس ضمن میں متنازعہ امیگریشن پالیسی اورنسلی تفریق کو فروغ دیاگیا۔نومنتخب صدر جو بائیڈن ڈونالڈ ٹرمپ سے بالکل متضاد شخصیت کے مالک ہیں اورانکی خوبیوں میں امریکہ کے عالمی کردار کے تعین، معاملہ فہمی اورسیاسی بصیرت شامل ہیں۔سینیٹ میں جو بائیڈن امریکہ کی سب سے طاقتور فارن ریلیشن کمیٹی کے تین عشرے تک رکن رہے اورایک عرصہ تک اس کی صدارت بھی کرتے رہے ہیں، بطور امریکی نائب صدر ، انہوں نے باراک اوبامہ دور میں افغانستان، عراق اوردیگر تنازعات میں امریکی پالیسی سازی کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیاتھا۔ڈونالڈ ٹرمپ کے برعکس ، جو بائیڈن ایسی امیگریشن پالیسی کے حامی ہیں جو نہ تو اخلاقی اقدار سے عاری ہو اورنہ ہی اس کی بنیاد نسلی امتیاز پر رکھی گئی ہو۔ نومنتخب صدر کی پالیسیاں اس اعتبار سے مسلمانوں، لاطینی امریکیوں اورجنوبی ایشیاءکے لوگوں کیلئے مددگارہونگی جو ٹرمپ انتظامیہ کا ٹارگٹ رہے ہیں۔اس سال رمضان المبارک کے حوالہ سے جو بائیڈن کا پیغام ان کی تمام کمیونٹیز کیلئے ایک کھلا اشارہ تھا۔ہم امیدکرسکتے ہیں کہ آئندہ برس امریکی مسلمان ایک مرتبہ پھر اپنے دوستوں اورہمسایوں کے ساتھ رمضان المبارک میں اکٹھے ہوسکیں گے اورعبادت بھی کرسکیں گے اورساتھ ہی ساتھ میں یہ بھی امید کرسکتاہوں کہ وائٹ ہاﺅس میں عیدالفطر کی سالانہ ضیافت بحال ہوگی اوروائٹ ہاﺅس کے دروازے بلاتفریق رنگ و نسل تمام امریکیوں کیلئے دوبارہ کھل جائیں گے جبکہ مسلم پبلک سرونٹس کیلئے کام کی جگہیں دوبارہ محفوظ اورمعتبر ہونگی۔
جو بائیڈن کا امریکی صدر منتخب ہونا پاکستان کیلئے کیسا ہوگا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ پاکستان اورجنوبی ایشیاءکیلئے امریکی پالیسی ازسرنو تشکیل دی جائے گی کیونکہ ٹرمپ کی اس جانب پالیسی زیادہ تر ذاتی نوعیت اورمالی مفادات پر مبنی تھی اورانہوں نے اس ضمن میں امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی سفارشات کو ہمیشہ نظرانداز کرنے کی روش اپنائے رکھی حالانکہ سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے پاس فارن پالیسی کے حوالہ سے دنیا کے بہترین اورتجربہ کارماہرین موجود ہیں۔ جو بائیڈن انتظامیہ پاکستان کے ساتھ حکومتی سطح پر اداروں کی مشاورت سے پالیسی سازی کرکے تعلقات بحال کرے گی اوراس بحالی میں امریکی فارن آفس ماہرین کی آرائ کا کردار اہمیت کا حامل ہوسکتاہے۔ جو بائیڈن ماضی کے کئی امریکی صدور سے زیادہ پاکستان کی صورتحال کوسمجھتے ہیں اوربطور نائب صدر اور رکن و چیئرمین سینیٹ فارن ریلیشن کمیٹی ان کے ذاتی طورپر پاکستانی حکام سے روابط اور اسکے مسائل سے آگاہی واضح ہے۔ بطور نائب صدر 2009ءمیں کیری لوگر بل کی قانون سازی میں بھی جو بائیڈن نے مرکزی کردار ادا کیاتھا جس کے تحت پاکستان کو 2010ءسے 2014ءکے دوران ساڑھے سات بلین ڈالر کی نان ملٹری امداد فراہم کی گئی تھی۔ وہ متعدد مرتبہ پاکستان کا دورہ کرچکے ہیں اور2015ءمیں انہیں حکومت پاکستان نے ملک میں جمہوریت کی بحالی اورمعاشی ترقی میں کردار ادا کرنے پر ان کی خدمات کے اعتراف میں پاکستان کا سب بڑا سول ایوارڈ ہلال پاکستان بھی عطاءکیا تھا۔ہم توقع کرسکتے ہیں کہ جوبائیڈن انتظامیہ پروپاکستان پالیسیز بحال کرکے پاکستانی سیاستدانوں سے روابط بہتر بنائے گی، وہاں آزادانہ اورمنصفانہ انتخابات کی حمایت کرے گی، جمہوری اداروں کی مضبوطی اورپاکستان کی معاشی اورتجارتی ترقی کےلئے اقدامات کیے جائیں گے۔نیویارک میں پاکستانی نڑاد صحافی عظیم ایس میاں کو کچھ عرصہ قبل دیئے گئے ایک انٹرویومیں جو بائیڈن نے اس جانب اشارہ دیاتھا کہ وہ پاکستان کو اربوں ڈالرز دے کر اس کی معیشت بحال کرنا چاہیں گے تاکہ وہاں ادارہ جاتی ترقی کے ساتھ ساتھ تعلیمی حالات بہتر بنائے جاسکیں۔ ان کا مزید کہناتھا کہ پاکستان کے ساتھ ہم شخصی تعلقات کی بجائے وہاں کے عوام کے ساتھ غیر مشروط تعلقات کو ترجیح دیں گے۔ ہم پاکستان کو سالانہ ایک سے پانچ ارب ڈالر معاشی امداد دینے کیلئے تیار ہیں اورساتھ ساتھ میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ پاکستان کو ملٹری ایڈ شفاف ہوگی۔ جو بائیڈن کے دور صدارت میں پاکستان کے ساتھ بعض معاملات پر تعلقات پچیدہ بھی ہونگے۔ اس حوالہ سے سینئر پاکستانی صحافی سید طلعت حسین اپنے ایک آرٹیکل میں اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے حوالہ سے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) اورانتہائ پسند گروپ کی کارروائیوں کے حوالہ سے معاملات حساس اورپچیدہ ہونگے لیکن کشمیر کے حوالہ سے جو بائیڈن انتظامیہ بالخصوص انسانی حقوق کے معاملہ میں سخت موقف اختیارکرسکتی ہے۔اس کے علاوہ ایک بڑا مسئلہ افغانستان امن عمل ہوگا جو انتہائی پچیدہ نوعیت اختیارکرچکاہےلیکن جو بائیڈن اپنے وسیع تجربہ اوراس خطہ میں اپنے تجربہ کے پیش نظر پاکستان اوربھارت سمیت تمام فریقین کے ساتھ مل کر امن عمل کو آگے بڑھاسکتے ہیں۔ڈونالڈ ٹرمپ کی طرف سے افغانستان سے فوجوں کی مجوزہ واپسی کے پلان کے برعکس جو بائیڈن کی حکمت عملی مختلف ہوگی جو باربار کہہ چکے ہیں کہ افغانستان سے فوجوں کے مکمل انخلائ کی بجائے وہ سپیشل مشن وہاں رکھیں گے تاکہ القائدہ اورآئی ایس کی طرف سے کسی بھی ممکنہ خطرہ سے بروقت نمٹا جاسکے۔ ان سب کے علاوہ پاک بھارت کشیدگی بھی نئے امریکی صدر کیلئے کسی چیلنج سے کم نہیں ہوگی اورنہ ہی کسی کے پاس ان دونوں قوموں کے دیرینہ تنازعات کے ختم کرنے کا کوئی فوری لائحہ عمل موجودہے۔ یہ امید ہی کی جاسکتی ہےکہ جو بائیڈن اپنی ذہانت اورتجربہ سے ان دو ایٹمی طاقتوں کو مذاکرات کی میز پر بٹھاسکیں گے۔ اس ضمن میں جو بائیڈن انتظامیہ بھارت کو بامقصد مذاکرات اوردیرپا امن کی بحالی کیلئے مائل کرنے کی اہلیت رکھتی ہے اورایساہونے کی صورت میں پاکستان کیلئے اپنے معاشی حالات بہتربنانے کا موقع پیداہوسکے گا۔بہرحال ڈونالڈ ٹرمپ کے افراتفری اوراذیت کے چار سالہ دور کے بعد جو بائیڈن کی فتح تازہ ہوا کا جھونکا اورایک مثبت تبدیلی کی طرف واضح اشارہ ہے کہ امریکہ ، پاکستان اوردنیا دوبارہ اشتراک عمل سے آگے کی جانب چل سکیں گے۔
Frank Islam Column Nov 19, 2020