منگولیا:جنوب ایشیائی حکمران خاندانوں کی جنم بھونی
ڈاکٹر ساجد خاکوانی(اسلام آباد،پاکستان)
منگولیا،شمال وسطی ایشیا کی قدیم ریاست ہے۔اسکے شمال میں روس اور جنوب میںچین کے ممالک ہیں،منگولیاکا تیسراکوئی پڑوسی نہیں ہے حتی کہ یہ مملکت سمندر کے جوار سے بھی محروم ہے۔اس ریاست کا کل رقبہ چھ لاکھ مربع میل سے کچھ زائد ہے۔وسیع و عریض صحراا،اونچے اونچے پہاڑ ،سطح مرتفائی سرزمین اور جنگلات سے بھراہوایہ ملک نسبتاََ سرد آب و ہواسے معمور ہے۔صحرائے گوبی یہاں کا مشہور ویرانہ ہے جہاں سے اٹھنے والے طوفان نے قرون اولی کے بغداد میں تباہیوں کی ناقابل بیان تاریخ رقم کی تھی۔”الان بیطار“ یہاں کا دارالحکومت ہے ،جو مرکزی انتظامی شہر ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کی سب سے زیادہ صنعتی اور کاروباری سرگرمیوں کا مرکز بھی ہے۔مملکت کی ایک چوتھائی آبادی صرف اسی شہر میں قیام پزیر ہے جبکہ ماضی قریب کی مردم شماری کے مطابق منگولیاکی کل آبادی دو ملین سے کچھ زائد ہے،اس لحاظ سے یہ دنیا کی سب سے کم آبادی والے ممالک میں گناجاتاہے۔تاہم بیسویں صدی کے وسط کے بعد سے یہاں کی آبادی میں بڑھوتری دیکھنے کو ملتی ہے،بدھ مت یہاں کا اکثریتی مذہب ہے۔
منگولیانے وسطی اور جنوبی ایشیاکو بہت سے حکمران خاندان دیے گویا یہ ایک تاریخ ساز سرزمین ہے جہاں کے اسپوتوں نے صفحہ ارضی پر اپنی مادر وطن کے نام کو خداداد صلاحیتیوں کے قلم اور جرات و بہادی کی سیاہی سے سنہرے حروف میں رقم کیاہے۔تاریخی منگولیا کاعلاقہ اب سیاسی طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو چکاہے ایک حصہ چین کے زیرانتظام ہے جسے ”منگولیاداخلی“کہتے ہیںدوسرا آزاد ریاست کے طور پر دنیاکے نقشے میں موجود ہے جسے “منگولیاخارجی“یا صرف ”منگولیا“بھی کہتے ہیں۔ایک زمانے میں یہ علاقہ منچوریااور ہنگری کے درمیان انسانی ہجرت کی بہت بڑی گزرگاہ رہاتھا ۔تاریخ دان حضرات”منگول“کوایک نسل کے نام سے جانتے ہیں لیکن درحقیقت یہ بہت سی نسلوں کی سرزمین ہے تاہم زبان ایک ایسا جوڑ ہے جس نے ان سب کو ایک ہی تسبیح میں پرو رکھاہے جبکہ تاریخی اور تہذیبی روایات کا مجموعہ بھی اس زبان اور علاقے کے لوگوں کے درمیان دوسری بہت بڑی قدر مشترک ہے جس کے باعث بظاہر دیکھنے سے یہ لوگ ایک ہی قوم محسوس ہوتے ہیں۔مغربی تہذیبی یلغار ان لوگوں سے انکے لباس،قیام و طعام اور طورواطوار اور تمدن و معاشرت میں انکی اپنی پہچان نہیں چھین سکی۔حقیقت یہی ہے کہ جو اقوام تاریخ کے اندھیروں میں بھی اپنی شناخت کو جبڑوں سے پکڑی رکھتی ہیں ان پر تابناک مستقبل کا سورج ایک بار پھر بھی مہربان ہوجاتاہے اور جو قومیں روشن ایام میں اپنے ماضی کو فراموش کر کے تو تہذیب و ثقافت میں دوسروں کی مقروض ہوجاتی ہیں انہیں تاریخ کے دھارے ہمیشہ کے لیے کتابوں میں دفن کردیتے ہیں۔
منگول اقوام ”ہان“نسل کے قبائل سے ہیں،جن کے ڈانڈے چینی سرزمین سے ملتے ہیں۔”ہان“نسل کے قبائل کے قبائل کا سراغ وسطی ایشیاکے علاقے میں تیسی سے پہلی صدی قبل مسیح کے دوران ملتا ہے جب انہوں نے یہاں پر ایک طاقتورریاست کی بنیاد بھی رکھی تھی۔تیرہویں صدی کے آغاز میں یہاں ایک بار پھر کل منگول اقوام کی واحد ریاست وجود میں آئی جس کی بنیاد قبائلی روایات پر مبنی تھی۔بہت جلد اس ریاست کے حکمرانوں نے اور ان کے خلف رو¿ں نے وسطی ایشیا کے ساتھ ساتھ چین اور روس کے بھی وسیع و عریض علاقوں پر قبضہ کرلیا۔تاریخ میں اس ریاست کے حکمرانوں اچھی اور بری شہرت میں بہت نام کمایاجس کے ذکر کا یہ موقع نہیں ہے تاہم بہت بڑے عروج کے بعد امتدادزمانہ اس پر غالب آیا اور زوال کے اندھیرے یہاں چھانے لگے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے بہت جلد پڑوسی ممالک کے بادشاہ یہاں پر قابض ہوگئے۔
11جولائی 1921کو منگولیانے ایک طویل جدوجہد کے بعد چین سے آزادی حاصل کر لی لیکن جزوی،کیونکہ کم و بیش نصف منگولیااب بھی چین کے زیر تسلط ہے۔آزادی کے فوراََ بعد منگولیانے اپنے رواہ و رسم روس سے بڑھالیے۔اس کی وجہ نقشے پر دیکھنے سے واضع طور پر محسوس کیاجاسکتا ہے کہ روس اور چین کے درمیان منگولیا ایسے ہے جیسے چکی کے دو پاٹوں کے درمیان گندم کادانہ ہوتاہے اور اس پر مستزاد یہ کہ سمندر کا ساحل بھی منگولیاسے نالاں ہے۔تب تنہاپرواز تو بالکل بھی ممکن نہیں ہوسکتی جب کہ دنیاکو سیکولرمغربی تہذیب نے تباہی کے اس دہانے پر لاکھڑا کیاہو کہ کوئی ملک دوسرے کا خیرخواہ نہ ہو سوائے مفادات کے ۔روس کے ساتھ منگولیاکے ان مضبوط تعلقات نے روس کے زوال کا گہرامشاہدہ کیالیکن چونکہ یہ مفادات کا ہی تعلق تھا اس لیے منگولیاسمیت روس کے سب دوستوں نے جو عروج کے زمانے میں لینن گراڈ کاطواف کرتے رہے سقوط ماسکو کے بعد اپنا قبلہ تبدیل کرنے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہ کیا۔
منگولیانے سیاسی نظام،معاشی تنظیم سازی اور تکنیکی راہنمائی سمیت ہر میدان میں روسی نواز اشتراکی نظام کو اپنا یاحتی کہ اپنی زبان کے حروف تہجی بھی روسی زبان سے مستعار لے لیے ۔خارجہ پالیسی جہاں روس کے پاس گروی رکھ دی گئی وہاں روسی افواج بھی منگولیاکی سرزمین پر اپنے اڈے بنانے لگیں۔لیکن چونکہ پہاڑی لوگ کسی کی غلامی قبول نہیں کرتے اس لیے افغان مجاہدین کی مساعی جمیلہ کے باعث جب لینن کے بلندوبالا بت کوماسکو کے سب سے بڑے چوراہے پر کرین سے اٹھا کر بلند ترین سطح سے زمین پر پٹخ کر چورچورکردیاگیاتو منگولیاکے عوام نے بھی غلامی کا قلاوہ اپنی گردن سے اتار پھینکااور ایک بار پھر منگولیاکے تعلیمی اداروں میں اپنے روایتی حروف تہجی میں تعلیم دی جانے لگی،مذہبی و سیاسی آزادی اور آزادی رائے نے ایک بارپھر اس سرززمین کے آئین و دستور میں اپنا مقام پیداکرلیااب منگولیانے یہ فیصلہ کیاہے کہ کسی غیرملکی کی فوج کو اپنے ہاں جگہ نہیں دیں گے اور اس فیصلہ کو آئینی تحفظ بھی دے دیاگیاہے۔روس کے زوال کے بعد منگولیاکی معیشیت نے بہت برے دن دیکھے،ان کی داخلی اور بین الاقوامی معیشیت کے پیمانے بری طرح متاثر ہوئے لیکن اس قوم کے پاس مخلص قیادت موجود تھی اور ایسی قیادت تھی کہ جس کی اولاد،زرومال اور جائداد سب کچھ اپنے مادر وطن میں ہی تھاتب اس قوم نے بہت جلد ان برے اور سخت حالات پر قابو پا لیااور تب سے اب تک منگولیاکی ترقی کا گراف بہت تیزی سے نہ سہی بہرحال سست روی سے ہی بلندی کی طرف گامزن ہے۔کیا پاکستانی قوم نے بھی آزادی کے بعد ایسا کیا؟کیا ہماری قوم نے بھی غلامی کے شعائر سے نجات حاصل کی ؟اور کیا دورغلامی کے وفادار و وفاشعار غلام خاندانوں سے جن کے بڑے انگریزکے کتوں اور گھوڑوں کے نہلانے پر فخر کیاکرتے تھے کیاپاکستانی قوم نے ان سے نجات حاصل کی؟؟؟تف ہے آزاد قوم کے ان غلام حکمرانوں پر جو بدترین گرمی وحبس کے دوران بھی گرم اور غلامانہ لباس میں تپتی دھوپ کے اندر اپنے آقاوں کا استقبال کر کے آج بھی ان سے وفاداری و وفاشعاری کا دم بھرتے ہیں۔
1992ءکے آئین کے مطابق اب ملک میں ایک سے زیادہ سیاسی پارٹیوں کواپنا مثبت کردار اداکرنے کی اجازت ہے ۔صدر مملکت وزیراعظم کا خود تقر کرتاہے،آئین کے مطابق قانون سازی کے اختیارات کا حامل ایک ہی ادارہ ہے جسے عرف عام میں قومی اسمبلی کہاجاسکتاہے جس میں 76افراد ملک کے مختلف حصوں سے منتخب ہوکر آتے ہیں۔دوتہائی کی اکثریت سے یہ ایوان قانون سازی کرتا ہے جس کے بعد آئین میں ترمیم بھی کی جاسکتی ہے۔مملکت کے بائیس صوبے ہیں اور اضلاع اور تحصیلوں کی تقسیم اس پر مزید ہے۔مرکز،صوبوں اور ضلعوں کی سطح پر عدلیہ اپنا کام آزادی سے کرتی ہے۔کچھ خصوصی عدالتیں بھی ملک میں قائم ہیں جہاں فوری نوعیت کے فوجداری مقدمات نمٹائے جاتے ہیں۔آئینی عدالت کے فرائض میں آئینی معاملات ہیں جو بڑی تبدہی اور باریک بینی سے طے کیے جاتے ہیں۔1992سے روسی افواج یہاں سے نکل چکی ہیں اور اب بہت ہی مختصرسی فوج ہے جواس ملک کے دفاع کے لیے کافی ہے اور اسے ایک چھوٹی سی فضائی قوت کی حمایت بھی حاصل ہے اور اس مختصر فوج کی وجہ یہ ہے کہ اس ملک کی عسکری قیادت نے کسی خود ساختہ مسئلے کی آڑ میں اپنے پڑوسیوں کو اپنا دشمن نہیں بنایا۔
منگولیاکے ”قازک“ اور”خود“ قبائل مکمل طور پر اسلام سے متعارف ہیں۔دارالحکومت سمیت ملک کے تمام شہروں میں مسلمان موجود ہیں ۔1222ءاور1254ءکے دوران یہاں دو مساجد تعمیر کی گئیں شایدمنگولیامیں یہ اسلام کا آغاز تھا۔یہاں کا ایک بہت بڑی تاریخی اہمیت کا حامل بادشاہ افغانستان کی فتح سے واپسی پر بخارا بھی گیاتھا جہاں پر اسے اسلام سے شناسائی کرائی گئی۔1330ءکے بعد یہاں تین یاچارمسلمان خاندانوں نے بھی حکومت کی۔مسلمانوں کی شرح پیدائش میں بڑھوتری کے باعث یہاں پر مسلمانوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا لیکن روس کی شکست کے بعد بہت سے قازک جب اپنے اصل وطن کو لوٹ گئے تو مسلمانوں کی تعداد میں ایک دم کمی واقع ہو گئی ،یہ گزشتہ صدی کے آخر کی بات ہے لیکن اس کے بعد جب سے آئین میں آزادی رائے اور مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے تب سے مسلمانوں کی تعدادمیں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے خاص طور پر ملک کے مغربی خطوں میں اوردارالحکومت میں۔اور مسلمانوں سمیت سب افراد کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کی مکمل آزادی حاصل ہے ۔
drsajidkhakwani@gmail.com
Dr Sajid Khakwani, Mangolia