چین اور بھارت کی حالیہ بد مزگی کو صرف کسی وقتی حکمت عملی یا طیش کی حالت قرار نہیں دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی دونوں ممالک کے درمیان اختلافات کسی چھوٹے سے علاقے پر ہے کہ جو اچانک سر اٹھا لیتے ہیں اور پھر دوبارہ فراموش کر دیے جاتے ہیں۔ بلکہ درحقیقت دونوں ممالک میں اختلافات کی جڑیں برصغیر میں برطانوی نوآبادیاتی دور سے جڑی ہوئی ہے اور چینی ایک مضبوط پس منظر کے ساتھ بھارت کے زیر قبضہ اروناچل پردیش جو درحقیقت جنوبی تبت ہے پر دعویٰ رکھتا ہے اس دعوے میں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ چین نے کبھی بھی اس حوالے سے کمزوری کا مظاہرہ نہیں کیا اور وہ ہمیشہ اپنے اس موقف پر قائم رہا ہے کہ تبت کو چین کا حصہ ہے اور چین برطانوی نوآبادیاتی دور سے لیکر آج تک اپنے اس دعوے پر مضبوطی سے جما ہوا ہے اس دعوے کے تاریخی پس منظر کا ذکر کرنا چاہوں گا یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ تبت چین کا حصہ ایک طویل عرصے سے ہے اور جب میں تبت کا ذکر کر رہا ہوں تو دوھراتا چلوں کہ اس سے میری مراد موجودہ تبت اور جنوبی تبت دونوں ہے۔جنوبی تبت پر بھارتی قبضہ ہے بھارت اس کو اروناچل پردیش کہتا ہے۔
چین میں یوان خاندان کی بادشاہت جو 1200 AD میں تھیں سے لیکر Qing خاندان کی بادشاہت کے اختتام جو 1913میں ہوئی تک تبت چین کا حصہ رہا لیکن جب برطانیہ کے اقتدار کا سورج نصف النہار پر تھا تو برطانیہ نے اس علاقے پر قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی کرنا شروع کردیں برصغیر میں برطانوی نوآبادیاتی دور سے قبل کبھی بھی برصغیر کی حکومت نے تبت پر قبضہ نہیں کیا تھا مگر برطانیہ اس امر کا خواہشمند تھا۔ برطانیہ کی مہم جوئی کا احساس چین کی حکومت کو گیا اور اس حکومت نے اپنے دفاع میں کام اٹھانا شروع کردیے۔
یہ Qing کی چین میں بادشاہت کا دور تھا لہذا انگریز سرکار کو سمجھ آ گئی کہ ان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اس پر ابھی قبضہ کر سکیں جب صورتحال گھمبیر ہونے لگیں تو چین اور برصغیر میں راج کرتا برطانیہ دونوں مذاکرات کی میز پر بیٹھ گئے۔ کسی بھی ملک کے لیے یہ سرے سے ممکن ہی نہیں ہوتا کہ وہ اپنے علاقے سے دستبردار ہوجائے اس لئے چین کے لئے بھی یہ ممکن نہیں تھا برصغیر میں قائم برطانوی نوآبادیاتی حکومت اور چین نے 1890 میں کلکتہ کے مقام پر مذاکرات کیے اور ایک معاہدہ کیا جو معاہدہ کلکتہ 1890 کہلاتا ہے۔
اس معاہدے میں انگریز سرکار نے تبت پر چین کی حاکمیت اعلی کو تسلیم کیا اور تبت کو چین کا حصہ مانتے ہوئے اپنی سرگرمیوں کو روک دیا۔ گزشتہ صدی کے آغاز میں چین میں ایک سیاسی بے چینی موجود تھی انگریز سرکار نے اس بے چینی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور 1903 میں تبت پر حملہ کر دیا یہ مہم 1903 سے لیکر 1904 تک چلتی رہی۔ مگر انگریز سرکار کے لیے تبت پر قبضہ کرنا ممکن نہیں ہو رہا تھا لہٰذا 1904 میں تبت کی مقامی حکومت کے ساتھ انگریزوں نے معاہدہ کیا اس معاہدے کو Treaty of Lhasa کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اس معاہدے میں بھی انگریزوں اور تبت کی مقامی حکومت نے تبت کو چین کا حصہ ہونے اور اس پر چین حاکمیت اعلی کو تسلیم کیا اس معاہدے میں برطانیہ کو تجارتی مراعات دے دی گئی۔ اس معاہدے کے تسلسل کے طور پر انگریزوں اور چین کے درمیان 1906 میں ایک اور معاہدہ ہوا اس معاہدہ میں از سر نو اس بات کو تسلیم کیا گیا کہ تبت چین کا حصہ ہے۔
ان دنوں کے برطانوی سرکار کے جاری کردہ سرکاری نقشوں میں تبت کو چین کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ معاملہ درحقیقت اس کے بعد خراب ہوتا ہے انیس سو تیرہ میں چین میں سیاسی افراتفری اپنے عروج پر پہنچ گئی اور Qing خاندان کی بادشاہت کا خاتمہ ہو گیا چین کی مرکزی حکومت کمزور پڑ گئی مقامی حکومتوں نے چھوٹی ریاستوں کا درجہ حاصل کر لیا اس کی بہترین مثال ہمارے ہاں مغلوں کے زوال کے بعد کا ہندوستان ہے۔ تبت میں بھی مقامی حکومت خود سر ہوگءاور انگریزوں کو اسی وقت کا انتظار تھا۔ اب تیل کی پوری ریاست ہیں بجائے ان کے سامنے تبت کی ایک چھوٹی سی کمزور ریاست تھی سرحدوں کے تعین کرنے کے نام پر انگریز سرکار نے 1914 میں شملہ میں 10 فریقی مذاکرات کا انعقاد کیا۔ ان مذاکرات میں برصغیر کے نوآبادیاتی حکمران چین اور بھارت کی مقامی حکومت کے نمائندے شامل ہوئے تبت کی مقامی حکومت انگریزوں سے بہت ڈرتی تھی انگریزوں نے اس ڈر کا فائدہ اٹھایا اور Tawang اور تبت کے جنوبی علاقے ( موجودہ اروناچل پردیش ) زبردستی اپنی عمل داری میں شامل کرلیا اور تب تک یہ مقامی حکومت سے اس معاہدے پر بھی دستخط کروا دیے ہیں۔
چین نے اس معاہدے کو جس کو شملہ کنونشن 1914 کہتے ہیں تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اگر برطانیہ نے جب نوبت پر قبضہ جما لیا اور اپنی سیاسی حالت کی وجہ سے اس قابل نہیں تھا کہ وہ قبضہ ختم کروا سکتا یہ سب کے باوجود کہ چینی حل نہیں کر سکتا تھا مگر پھر بھی انگریز سرکار نے شملہ کنونشن 1914 کو دو عشروں کے بعد شائع کیا۔ اور اس سے بھی زیادہ دلچسپ یہ امر بیان کرنا ہوگا کہ انیس سو پینت?س تک برطانوی ہند کے سرکاری نقشوں میں جنوبی تبت یعنی موجودہ اروناچل پردیش کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔ انگریز سرکار نے 1935 کے بعد کے سرکاری نقشوں میں اس علاقے کو برطانوی ہندوستان کا حصہ دکھانا شروع کیا تھا یہ بات بھی بہت دلچسپی کی حامل ہو گی کہ آخر برطانیہ تبت پر قبضہ کیوں کرنا چاہتا تھا جہاں پر اس کا جواب توسیع پسندی کی خواہش ہوگا۔
وہیں پر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ برطانیہ اس راستے تجارت کرنا چاہتا تھا اور تجارت کے حوالے سے غیر معمولی اختیارات چاہتا تھا اس کے علاوہ یہ بھی واضح تھا کہ روس سے برطانیہ کو خطرات لاحق تھے اور روس سے برطانیہ خائف رہتا تھا۔ اسے برطانیہ کی خواہش تھی کہ تبت ایک بفر اسٹیٹ کے طور پر وجود میں آ جائے۔ اور اس کو روس کا براہ راست مقابلہ نہ کرنا پڑے برطانیہ کی اس خواہش نے چین کے سیاسی انتشار کے سببب سے ایک اور راستہ اختیار کر لیا اور اس نے جنوبی تبت پر قبضہ کرلیا اور کیونکہ برطانیہ کے جانشین بھارتی حکمران بھی قبضہ کرنے پر یقین رکھتے تھے اور رکھتے ہیں لہذا انہوں نے جنوبی تبت کی چین کے حوالے کرنے کی بجائے اس پر قبضہ برقرار رکھا جب کسی کے حق پر قبضہ کیا جائے گا تو پھر کسی وقت وادی گلوان والے واقعات بھی پیش آ ہی جائیںگے جو کہ آ گئے ۔
Muhammad Mahdi Column 07/15/2020