گذشتہ ہفتہ جاری ہونے والی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی 2019رپورٹ کرپشن پرسیپشن انڈیکس(سی پی آئی ) جو کہ 180ممالک میں کیے گئے سروے پر مشتمل تھی ،میں واضح کیاگیاہے کہ اکثریتی ممالک میں کرپشن سے نمٹنے کیلئے قابل قدر اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ پاکستان اس انڈیکس میں انحطاط کاشکاردکھائی دیاہےجس کے سی پی آئی پوائنٹس امسال 32ریکارڈ ہونے کی وجہ سے وہ دنیا بھرمیں 120ویں نمبر پررہا جبکہ سال 2018میں پاکستان 33پوائنٹس کے ساتھ 117ویں پوزیشن پر تھا۔
پاکستان اس انڈیکس کے اوسط سکور43سے بھی نیچے رہا جبکہ بہترین سکور 87 سے کافی نیچے دکھائی دیتاہے۔ یہ انڈیکس 13مختلف سرویز اورماہرین کی آراءکی بنیادپر تشکیل دیاجاتاہے جس میں سکورنگ کی بنیاد صفر(انتہائی کرپٹ) سے شروع ہوکر 100پوائنٹس انتہائی دیانتدارممالک تک تشکیل دی جاتی ہے۔
یہ کم سکوراورریکنگ بلاشبہ پاکستانی وزیراعظم عمران خان اورانکی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کےلئے گہری تشویش کا باعث ہوگی جو ملک اوربالخصوص پبلک سیکٹر سے کرپشن کے خاتمہ کے نعرہ کے ساتھ اقتدارمیں آئے تھے اورعمران خان کی انتظامیہ نے اس جانب پیش قدمی دکھاتے ہوئے انقلابی اقدامات اٹھائے اورایسیٹ ریکوری یونٹ قائم کرنے کے علاوہ نئے قوانین نافذکرنے کے ساتھ ساتھ کرپشن کے خاتمہ اورکرپٹ عناصر کو سزائیں دلوانے کے ذمہ دارادارے قومی احتساب بیورو (این اے بی) کو آزادانہ کام کرنے کا اختیاربھی دیاتھا۔پاکستان سے متعلق ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا سروے بہرحال ظاہر کرتاہے کہ ابھی بہت کچھ مزید کرنے کی ضرورت ہے۔
میری ذاتی رائے میں پاکستان کے سماجی اورسیاسی تجزیہ کاروں کرپشن کے خلاف مہم سے متعلق اپنی آرائ، تجزیے اورتجاویز دی ہونگی اورانہی کے تناظرمیں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کرپشن کے خلاف مہم کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہوگی۔اس پر مستزاد یہ کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے سروے میں ٹاپ پر آنے والے ڈنمارک، نیوزی لینڈ، فن لینڈ ، سویڈن اورناروے جیسے ترقی یافتہ ممالک کے کرپشن کے خلاف اقدامات کو کیس سٹڈی کے طورپردیکھنے اوران پر عمل کرنے سے بھی بہتری لائی جاسکتی ہے۔ان ممالک نے کرپشن روکنے اوراسے ختم کرنے کےلئے جو اقدامات کئے ان میں سے بعض اہم درج ذیل ہیں۔
1-دیانتدارانہ نظام : کرپشن کے خاتمہ کیلئے قومی سطح پر دیانتدارانہ نظام قائم کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرہ کے تمام طبقات میں اس مقصدکے حصول کےلئے اتفاق رائے پیدا کیاجائے کیونکہ کرپشن کے خلاف جہاد عوامی شمولیت اورشفاف لائحہ عمل کے بغیر ممکن نہیں اوراس میں اطلاعات تک رسائی بنیادی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔
2-سماجی اقتصادی بہبودکا ماڈل: ڈنمارک کے ساتھ ساتھ نیوزی لینڈ سی پی آئی رینکنگ میں سرفہرست ہیں۔ ڈنمارک کے معاشرہ میں کئی ایک ایسی خصوصیات ہیں جو کرپشن میں کمی کاموجب بنی ہیں۔ ان میں پرکشش تنخواہیں، سوشل سکیورٹی (حتیٰ کہ انکے لئے بھی جو کام کاج کے قابل نہیں)، کام کاج کیلئے بہترین ماحول اورپنشن سکیم وغیرہ شامل ہیں۔ ریٹائرڈ اوربےروزگارافراد کیلئے مالی اورسماجی بہبود کا احساس بھی کرپشن کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتاہے۔
3- اینٹی کرپشن پالیسی کو کارپوریٹ سوشل ذمہ داریوں کے ساتھ منسلک کردیاگیاہے اورڈنمارک جیسے ممالک میں ان دونوں شعبوں پر خصوصی توجہ دی گئی ہے تاکہ کرپشن کی جڑ کاٹی جاسکے۔
4- بجٹ اطلاعات تک عوام کی رسائی: بجٹ سے متعلق تمام تر معلومات عوام کی پہنچ میں دیئے جانے سے کرپشن کے خلاف جدوجہد میں عوام براہ راست شریک ہوجاتے ہیں۔
5- آزاد میڈیا: ذرائع ابلاغ کی آزادی اورمیڈیا پبلک اورپرائیویٹ سیکٹر کے اداروں اورسیاسی ومالی کرپشن کے امکانات کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
6- موثر نظام قانون: ایک مضبوط، غیر جانبداراورنتیجہ خیز نظام قانون جو کرپشن کے مرتکب افراد کو پکڑنے اورسزا دینے کی اہلیت رکھتاہو کسی بھی جامع اینٹی کرپشن پروگرام کا لازمی جزو ہوتاہے۔
ان اقدامات کے علاوہ سرکاری سطح کی کرپشن کی روک تھام کیلئے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے مندرجہ ذیل سفارشات تجویز کی ہیں۔
1-سیاست میں سرمایہ کی بہتات اوراس بنائ پر اثرورسوخ پر کنٹرول کیلئے سیاسی فنڈنگ کی سخت مانیٹرنگ۔
2- بجٹ اورسرکاری مشینری کے ذاتیات پر مبنی اورغلط استعمال کی حوصلہ شکنی کیلئے سخت اقدامات اختیارکرنا۔
3- مفادات کے ٹکراﺅ اورذاتی پسند وناپسند سے بالاتر ہوکر پالیسیوں کی تشکیل۔
4- لابنگ سرگرمیوں کو باقاعدہ بنانے کیلئے فیصلہ سازی کےمعاملات میں بامقصدرسائی کی فراہمی
5- انتخابی نظام کومضبوط بنانے کیلئے ڈس انفارمیشن مہمات کی حوصلہ شکنی اورتعزیری اقدامات۔
6- شہریوں کابااختیاربنایاجانا، انسانی حقوق کے کارکنوں، سول سوسائٹی اورذرائع ابلاغ کے نمائندوں کا تحفظ۔
7- چیک اینڈ بیلنس قائم کرکے اختیارات کی تقسیم کوفروغ دینا۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان کی حکومت کو چاہئے کہ دنیا بھر کے کرپشن کے خاتمہ کے اقدامات اورٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی تجاویز کی روشنی میں ایک جامع اوروسیع ترتناظرمیں اینٹی کرپشن اصلاحاتی پروگرام تشکیل دیں جو پاکستان اوراسکے عوام کیلئے مفید ثابت ہوسکے۔ منعقدہ ڈیووس سوئٹزرلینڈ میں ہونے والے ورلڈ اکنامک فورم کے پچاسویں اجلاس کے انعقاد سے پہلے دنیا کی معیشت پر شائع ہونے والے ایک آرٹیکل میں انکشاف کیاگیاتھاکہ دنیا کے ترقی پذیرممالک کو کرپشن، رشوت خوری، ٹیکس چوری اوردیگر مالی بدعنوانیوں کے باعث سالانہ کی بنیاد پر ایک کھرب 26ارب ڈالر (1.26ٹریلین ڈالر)کا نقصان برداشت کرنا پڑرہاہے۔
یہ اتنی بڑی رقم ہے کہ اس سے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی جھیلنے والے ایک ارب 25کروڑ (1.25بلین) لوگوں(جن کی روزانہ آمدن 1.25ڈالر سے کم ہوتی ہے) کو نہ صرف غربت سے نکالنے میں مددگارثابت ہوسکتی ہے بلکہ کم از کم چھ سال تک انہیں غربت سے بچاکر بھی رکھ سکتی ہے۔
بطورایک بھارت نڑاد امریکی اورسول سوسائٹی لیڈر میں سمجھتاہوں کہ بلاتفریق رنگ و نسل ،مذہب اورسماجی رتبہ کے تمام شہریوں کو برابری کی بنیادپر انصاف پر مبنی اورکھلا ذہن رکھنے والے معاشرہ کی فراہمی پہلی ترجیح ہونی چاہئے۔اسی بناء پر میں نے 2018ء میں فرینک اسلام انسٹی ٹیوٹ برائے اکیسویں صدی سٹیزن شپ کی بنیاد رکھی تھی۔
پبلک سیکٹرکی کرپشن کا خاتمہ کرکے کسی بھی ملک کو برابر کی بنیاد پر مواقع فراہم کرنے والا ملک اوراسے سرمایہ دار اوربااثر افراد کی گرفت سے نکالاجاسکتاہے۔غیرجانبدارانہ طورپر دیکھاجائے تو میں یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا کہ میری جنم بھومی بھارت اورمیری جائے سکونت امریکہ کی حالت بھی کرپشن کے تناظرمیں کوئی زیادہ بہتر نہیں ہے۔
بھارت سی پی آئی میں 41سکور کے ساتھ 80ویں نمبر اورامریکہ 69سکور کے ساتھ 23ویں نمبر پر ہے۔پاکستان کی طرح بھارت اورامریکہ کے ساتھ ساتھ بہت سے ممالک میں بھی کرپشن کے خاتمہ کیلئے اقدامات کرنے کیلئے بہتری کی ضرورت اور گنجائش موجودہے تاکہ صرف ان ممالک میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو ایک بہتر اورانصاف فراہم کرنے والی جگہ میں بدلا جاسکے۔