سندھ طاس معاہدہ: ایک تفصیلی جائزہ
سندھ طاس معاہدہ (Indus Waters Treaty) پاکستان اور بھارت کے درمیان 19 ستمبر 1960ء کو طے پایا

خصوصی مضمون ؛ سلمان ظفر ( نیویارک )
سندھ طاس معاہدہ (Indus Waters Treaty) پاکستان اور بھارت کے درمیان 19 ستمبر 1960ء کو طے پایا۔ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان پانی کی تقسیم کے حوالے سے ایک تاریخی دستاویز ہے جو عالمی بینک کی نگرانی میں طے ہوا۔ اس معاہدے کا مقصد دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کے پانی کو منصفانہ طریقے سے تقسیم کرنا اور دونوں ممالک کے درمیان پانی کے تنازعات کو روکنا تھا۔
1947ء میں برصغیر کی تقسیم کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان کئی مسائل پیدا ہوئے جن میں سب سے اہم پانی کا مسئلہ تھا۔ چونکہ زیادہ تر دریا بھارت سے گزر کر پاکستان آتے ہیں، اس لیے بھارت نے 1948ء میں دریائے سندھ کے پانی کی فراہمی بند کر دی، جس سے پاکستان میں پانی کی شدید قلت پیدا ہوئی۔ یہ عمل دونوں ممالک کے درمیان ایک بڑے تنازعے کا پیش خیمہ بنا، جس کے حل کے لیے عالمی بینک نے ثالثی کا کردار ادا کیا۔
معاہدے کے مطابق دریاؤں کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا:
1. مشرقی دریا: راوی، ستلج، اور بیاس — ان کا پانی بھارت کو دیا گیا۔
2. مغربی دریا: سندھ، جہلم، اور چناب — ان کا پانی پاکستان کو دیا گیا۔
یہ تقسیم اس اصول پر کی گئی کہ چونکہ مغربی دریا پاکستان کے لیے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں، اس لیے انہیں پاکستان کے لیے مخصوص کر دیا گیا، جبکہ مشرقی دریا بھارت کو مل گئے۔
عالمی بینک نے نہ صرف معاہدے میں ثالثی کی بلکہ اس کی نگرانی بھی کی۔ اس نے مالی امداد بھی فراہم کی تاکہ پاکستان اپنے آبی ذخائر، نہری نظام، اور بند تعمیر کر سکے۔ انہی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ منگلا اور تربیلا جیسے بڑے ڈیم بنائے گئے۔
• پاکستان کو مغربی دریاؤں کا مکمل اختیار حاصل ہوا۔
• بھارت اور پاکستان کے درمیان پانی کے مسئلے پر ایک مضبوط قانونی بنیاد قائم ہوئی۔
• پاکستان نے اس معاہدے کی بدولت اپنے زرعی نظام کو مضبوط کیا اور پانی کے ذخائر بنائے۔
اگرچہ یہ معاہدہ کئی دہائیوں سے نافذ العمل ہے، لیکن وقتاً فوقتاً اس پر عملدرآمد کے حوالے سے تنازعات بھی سامنے آتے رہے ہیں، خصوصاً بھارت کی جانب سے مغربی دریاؤں پر ڈیمز بنانے کی کوششوں کو پاکستان نے چیلنج کیا ہے۔ مثال کے طور پر، بگلیہار ڈیم اور کشن گنگا منصوبہ متنازعہ بنے۔
سندھ طاس معاہدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کے بٹوارے کا ایک اہم معاہدہ ہے، جو اب تک بڑی حد تک کامیابی سے نافذ العمل ہے۔ اگرچہ بعض اوقات اس پر عملدرآمد کے حوالے سے شکایات سامنے آتی ہیں، لیکن یہ معاہدہ جنوبی ایشیا میں پانی کے تنازعات کو روکنے میں ایک مثالی کردار ادا کر رہا ہے۔ دونوں ممالک کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اس معاہدے کی روح کے مطابق اس پر عمل کریں اور تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کریں.
سندھ طاس معاہدہ 1960ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان عالمی بینک کی نگرانی میں طے پایا۔ اس کا مقصد دریائے سندھ کے پانی کو منصفانہ طور پر تقسیم کرنا تھا۔ معاہدے کے تحت دریاؤں کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا: مشرقی دریا (راوی، ستلج، بیاس) بھارت کو دیے گئے، جبکہ مغربی دریا (سندھ، جہلم، چناب) پاکستان کو ملے۔
عالمی بینک نے مالی و تکنیکی مدد فراہم کی جس سے پاکستان نے منگلا اور تربیلا جیسے بڑے ڈیم تعمیر کیے۔ اگرچہ وقتاً فوقتاً بھارت کی طرف سے ڈیم بنانے کے اقدامات پر اعتراضات ہوئے، لیکن مجموعی طور پر یہ معاہدہ کامیابی سے جاری ہے۔
یہ معاہدہ جنوبی ایشیا میں پانی کے تنازعات کو حل کرنے کے لیے ایک اہم مثال ہے، جسے باہمی تعاون سے جاری رکھنا وقت کی ضرورت ہے۔