اوورسیز پاکستانیزخبریں

نیلوفر عباسی کی کتاب “زیب النساءانتظار میں ہے” کی تقریب رونمائی

وکیل انصاری، عابد رافع اور بشیر قمرکے زیر اہتمام تقریب کی صدارت مامون ایمن نے کی ، صبیحہ صبا ،رفیع الدین راز سمیت اہم ادبی اور کمیونٹی شخصیات اور ارکان کی شرکت، نیوفر عباسی کو مبارکباد

کتاب میں نفرت ، خون ، قتل ، معجزہ ، آنسو اور بے گور و کفن لاشوں کا ذکر ہے ، مصنفہ نے کہانی کا حق ادا کر دیا ہے ۔ اس ناولٹ میں ایک پیام ہے: فرد نامساعد حالات سے مقابلہ کر سکتا ہے

نیویارک (رپورٹ: جمیل عثمان )کاروان فکر و فن شمالی امریکہ کے زیر اہتمام نیویارک میں مایہ ناز فنکارہ، اداکارہ اور براڈکاسٹر محترمہ نیلوفر عباسی کے تازہ ترین ناولٹ “زیب النساءانتظار میں ہے” کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی ۔ خراب موسم اور بارش کے باوجود اتنے لوگ آئے کہ جگہ کم پڑ گئی ۔ ہال میں جتنی کرسیوں کی گنجائش تھی اس سے زیادہ کرسیاں منگانے کے با وجود بہت سے لوگ کھڑے رہے ۔وکیل انصاری نے اپنے مخصوص انداز میں مسکراہٹیں بکھیرتے ہوئے لوگوں کا استقبال کیا ۔ انہوں نے کہا کہ توقع سے زیادہ لوگ آئے ہیں لیکن ہماری کوشش ہے کہ ہم تمام لوگوں کو نشستیں فراہم کر سکیں ۔کاروان فکر و فن کے جنرل سیکرٹری اعجاز بھٹی نے معزز مہمانوں کو اسٹیج پر بلایا ۔
صدر مجلس ، مامون ایمن ، مہمان خصوصی ، ڈاکٹر صبیحہ صبا ،مہمان اعزازی ، رفیع الدین رازاور خاص الخاص مہمان، مصنفہ محترمہ نیلوفر عباسی تھیں
راجہ اویس نے وکیل انصاری کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ وکیل بھائی اینکر پرسن ہیں، شاعر ہیں، ادیب ہیں اور نیو یارک کی علمی ادبی اور سماجی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ان کا لہجہ دھیما ہے اور ہر وقت ان کے چہرے پر مسکراہٹ رہتی ہے ۔ان کی خاص بات یہ ہے کہ ٹیم چلانے کی اہلیت رکھتے ہیں ۔ ان کے اندر لیڈروں کی خصوصیات موجود ہیں ۔تعارف کے بعد اویس راجہ نے مائیک وکیل انصاری کے حوالے کیا کہ وہ پروگرام کو آگے بڑھائیں ۔ وکیل انصاری نے سب سے پہلے مشہور دانشور اور سیاسی تجزیہ نگار فائق صدیقی صاحب کو خطاب کی دعوت دی ۔ فائق صدیقی نے کہا کہ نیلوفر عباسی ایک ٹرینڈ سیٹر اور کلاسیک ایکٹر ہیں ۔ہم سب ان کے ساتھ سفر کرتے آ رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ڈھائی کڑوڑ لڑکیاں بھی زیب النساءکی طرح انتظار میں ہیں ۔
ڈاکٹر ثروت رضوی نے کہا کہ “زیب النساءانتظار میں ہے” درد، عظمت اور خاموشی کی کہانی ہے ۔ان کا قلم نرمی ، شائستگی اور جذبات سے لبریز ہے، ان کی کتاب میں پوری تاریخ سمٹی ہوئی ہے ۔
ادیب اور سماجی شخصیت جمال محسن نے کہا کہ نیلوفر عباسی ایک مایہ ناز فنکارہ ہیں اور پچاس برس گزرنے کے بعد بھی انہیں ان کے “شہہ زوری” کے کردار کے سبب یاد کیا جاتا ہے۔ سقوط مشرقی پاکستان کے حوالے سے انہوں نے یہ ناول لکھا ہے جب کہ اس موضوع پر کوئی نہیں بولتا – حکمرانوں کے منہہ پر تالے پڑے ہوئے ہیں ۔ سقوط ڈھاکہ تقسیم ہند سے زیادہ المناک ہے – اس موضوع پر ناول لکھنا حقیقی شہہ زوری ہے -۔
انجم عارف صدیقی صاحبہ نے نیلوفر کو مبارکباد دی کہ ان کی کتاب آ گئی ۔ انہوں نے قمرعلی عباسی صاحب کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ہر کتاب میں نیلوفر کے بارے میں لکھا ہوتا تھا۔ انہوں نے دعا کی کہ اللہ نیلوفر کو صحت و سلامتی والی زندگی دے اور عباسی صاحب کے درجات بلند کرے ۔
کاروان فکر و فن کی مجلس عاملہ کے رکن اور شاعر و ادیب جمیل عثمان نے “زیب النساءانتظار میں ہے” پر سیر حاصل تبصرہ کیا ۔ انہوں نے کہا کہ یہ کتاب سقوط ڈھاکہ کے موضوع پر لکھی جانے والی کتابوں میں ایک اہم مقام حاصل کرے گی ۔ نیلوفرعباسی نے اس وقت اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے جب اہل وطن ان حرماں نصیب لوگوں کو بھلا چکے ہیں جنہوں نے پاکستان بنانے اور میں پاکستان کو بچانے کے لئے بے مثال قربانیاں دیں ۔
اردو ٹائمز کی ایڈیٹر محترمہ انجم خلیل نے کہا کہ نیلوفر عباسی نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا ہے ۔ نیلوفر سے دوستی بھی عجیب ہے ۔شہہ زوری دیکھی تو ان کی اداکاری پسند آئی ، پھر دوستی گہری ہو گئی ۔ زیب النساءکی کہانی کھیتوں کھلیانوں کی ہے ،یہ کتاب سقوط ڈھاکہ کے قیامت خیز واقعات کی ترجمانی کرتی ہے ۔
ٹی وی اینکر پرسن راحیلہ فردوس نے کہا کہ نیلوفر سے تعلق دلوں اور گھروں میں موجود ہے ۔ بہت خوبصورت شخصیت کی مالک ہیں – انتہائی محبت کرنے والی خاتون ہیں ۔
معروف نقاد اور مصنفہ پروفیسر خالدہ ظہور نے کہا کہ نیلوفر بنیادی طور پر فنکارہ ہیں ۔ وہی لکھنے والا کامیاب ہوتا ہے جو اپنا خیال دنیا کے سامنے رکھ دیتا ہے – قمر علی عباسی کی صحبت سے انہوں نے بہت کچھ سیکھا ہے – آپ انسان کی نفسیاتی باریکیوں کو بیان کرنے کا فن جانتی ہیں – نیلوفر نے زیب النساءکے کردار کے ذریعے مشرقی پاکستان کی علحیدگی کی خوں چکاں واقعات کی یاد دلائی ہے ۔
ادیب اور پبلشر بشیر قمر صاحب نے کہا کہ کہ نیلوفر عباسی کی شخصیت ہر دل کو اپنا گرویدہ بنا لیتی ہے۔ زیب النساءکی کہانی ایک دردناک المیہ ہے – نیلوفر انسانیت کا رشتہ خوب نبھاتی ہیں۔
ممتاز سماجی شخصیت اور قمر علی عباسی کے دیرینہ دوست جناب عابد رافع نے کہا کہ نیلوفر عباسی سے ہماری فیملی کا رشتہ ہے۔ میں قمر علی عباسی کی ہر کتاب کی رونمائی میں شریک رہا – نیلوفر ایک اچھی اداکارہ ہی نہیں ایک مصنفہ اور ایک اچھی ماں بھی ہیں، فوج نے لاکھوں افغانیوں کو پناہ دی مگر بنگلہ دیش کے بہاریوں کو نہیں – بھابی نے جرات کی جو اس موضوع کو آگے لے کر آئیں۔
شاعر عالی مقام اور مہمان خصوصی محترمہ صبیحہ صبا نے کہا کہ “میں جزئیات میں نہیں جاو¿ں گی مگر اس چھوٹے سے ناولٹ نے نیلوفر عباسی کو بڑے ناول نگاروں کی صف میں لا کھڑا کیا ہے ۔ انہوں نے دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے ۔
مہمان اعزازی اور استاد شاعر محترم رفیع الدین راز نے پورے ہال کی طرف سے محترم وکیل انصاری کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اتنی اچھی تقریب منعقد کی ۔ موقعے کی مناسبت سے انہوں نے اپنا ایک شعر سنایا:
اے زمیں بنگال کی کچھ ہے تجھے اس کی خبر ۔۔۔۔کھا گئی تو کس قدر نور، نظر لخت جگر
انہوں نے کہا کہ دسمبر کو میں نے زمین کو پاو¿ں کے نیچے سے نکلتے دیکھا ، شاید ہم مجموعی طور پر ظلم سہنے کے عادی ہو چکے ہیں ، اس وقت ایک جگنو نیلوفر عباسی کی شکل میں اذان دے رہا ہے، ہم اگر دردمند دل رکھتے ہیں تو اس آواز سے سرسری گزر ہی نہیں سکتے ، نیلوفر عباسی کی آواز کان میں گونج رہی ہے ۔ کاش میں بنگلہ دیش جا کر زیب النساءسے پوچھ سکتا کہ وہ کس کے انتظار میں ہے ۔ انہوں نے سقوط ڈھاکہ کے واقعات کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ محفوظ کیا ۔ اس ناولٹ کو ایک بڑا ناول ہونا چاہئے ۔
نیلوفر عباسی نے وکیل انصاری، بشیر قمر، اور عابد رافع کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے اس پروگرام کا انعقاد کیا ۔ انہوں نے کہا کہ “میں کس کس کا شکریہ ادا کروں ۔ جیسی پذیرائی ملی ہے میں اس کے لئے تمام لوگوں کی شکر گزار ہوں۔ اپنے بارے میں صرف یہ کہوں گی کہ سادہ سی طبیعت کی خاتون ہوں ۔ مجھے مصنفہ بنانے میں عباسی صاحب اور انجم خلیل کا ہاتھ ہے ۔ اب انہی کی یاد کو زندہ رکھنے کی کوشش کرتی ہوں ۔ جمیل عثمان کا شکریہ کہ انہوں نے اس کتاب کے لکھنے میں میری رہنمائی کی اور تمام دوست احباب کا ایک بار پھر شکریہ” – اپنی تقریر کے اختتام پر نیلوفر عباسی صاحبہ نے اپنے ناولٹ کا آخری پیراگراف پڑھ کر سنایا ۔
صدر مجلس جناب مامون ایمن نے کہا نیلوفر عباسی کا ناولٹ تغیر و تبدل کے پردے اٹھاتا ہے۔ ان پردوں میں جاری رہنے والے مصائب کا ذکر اس کتاب میں ہے ۔ اس کتاب میں نفرت ، خون ، قتل ، معجزہ ، آنسو اور بے گور و کفن لاشوں کا ذکر ہے ، مصنفہ نے کہانی کا حق ادا کر دیا ہے ۔ اس ناولٹ میں ایک پیام ہے: فرد نامساعد حالات سے مقابلہ کر سکتا ہے ۔مامون ایمن صاحب نے آخر میں سبھوں کا اور خاص کر بیگم وکیل انصاری کا شکریہ ادا کیا ۔ رات کے تقریباً گیارہ بجے یہ تقریب اپنے اختتام کو پہنچی۔

 

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button