کالم و مضامین

امریکی صدرٹرمپ کا سٹیٹ آف دی یونین خطاب اور پاکستان کا شکرئیہ

تقریر میں صدر ٹرمپ نے دہشتگردی کے خلاف پاکستان کی حکومت کی کاوشوں کو سراہا

Salman Zafar New York,
Salman Zafar New York-

خصوصی مضمون ۔۔سلمان ظفر(نیویارک )

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔ یہ تقریر اُن کی صدارت کی پہلی بڑی تقریر تھی، جسے نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا بھر میں انتہائی دلچسپی سے سنا گیا۔ صدر ٹرمپ نے اپنی تقریر میں کئی اہم موضوعات پر بات کی، جن میں اقتصادی اصلاحات، حکومتی ڈھانچے میں تبدیلیاں، سماجی پالیسیاں، خارجہ امور، اور ڈیموکریٹس پر تنقید شامل تھیں۔ یہ تقریر 1 گھنٹہ 40 منٹ طویل تھی اور اسے امریکی تاریخ کے طویل ترین صدارتی خطابات میں شمار کیا جا رہا ہے۔
اس تقریر میں صدر ٹرمپ نے دہشتگردی کے خلاف پاکستان کی حکومت کی کاوشوں کو سراہا اور آئی ایس آئی ایس کے افغانستان کی برانچ کے کمانڈر مُحمد شفیع اللہ کو گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کرنے پر شکریہ ادا کیا۔ یاد رہے کمانڈر شفیع اللہ نے 2021 میں کابل ائیرپورٹ پر دہشتگردی کے ایک واقعے میں معاونت کی تھی جس میں 13 امریکی فوجی اور بہت سارے سویلین کی اموات ہوئی تھیں۔
صدر ٹرمپ نے اپنی تقریر میں حکومت کے بڑھتے ہوئے سائز پر سخت تنقید کی اور اعلان کیا کہ وہ وفاقی ملازمین کی تعداد میں کمی کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ میں سرکاری بیوروکریسی غیر ضروری طور پر بڑی ہو چکی ہے، جو معیشت پر بوجھ بن رہی ہے۔
ایلون مسک کی قیادت میں محکمہ براۓ حکومتی کارکردگی کے قیام کا اعلان، جس کا مقصد حکومتی اخراجات میں کمی اور افادیت میں بہتری لانا ہوگا۔سرکاری اداروں کی تنظیمِ نو اور بعض غیر مؤثر اداروں کو بند کرنے کا عندیہ۔
یہ ایک متنازعہ اعلان تھا، کیونکہ ڈیموکریٹس اور بعض ماہرین کے مطابق اس سے ہزاروں ملازمین بے روزگار ہو سکتے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے اقتصادی پالیسی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت امریکی عوام کو بڑے پیمانے پر ٹیکس میں چھوٹ فراہم کرے گی۔
ٹیکسوں میں واضح کمی، خاص طور پر درمیانے اور نچلے طبقے کے لیے۔امریکی کمپنیوں کے لیے نئی مراعات، تاکہ وہ چین اور دیگر ممالک کے بجائے امریکہ میں سرمایہ کاری کریں۔
سابق صدر جو بائیڈن کی اقتصادی پالیسیوں پر شدید تنقید، خاص طور پر مہنگائی کے مسئلے پر۔
انہوں نے انڈوں، دودھ اور اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافے کا خصوصی طور پر ذکر کیا، لیکن ان کے حل کے لیے کوئی ٹھوس حکمت عملی پیش نہیں کی۔
ٹرمپ نے امریکی معاشرتی و ثقافتی معاملات پر کھل کر بات کی، جن میں اسکولوں میں ٹرانس جینڈر نظریات کی تعلیم اور خواتین کے کھیلوں میں مردوں کی شرکت کے مسائل شامل تھے۔
اسکولوں میں فیملی ویلیوز پر مبنی نصاب متعارف کرانے کا عندیہ۔کھیلوں میں صنفی قوانین مزید سخت کرنے کا اعلان، تاکہ خواتین کے مقابلوں میں مرد کھلاڑیوں کی شرکت روکی جا سکے۔
ریپبلکنز نے ان اقدامات کو سراہا، تاہم لبرل اور ڈیموکریٹ حلقوں میں اس پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔
صدر ٹرمپ نے اپنی تقریر میں خارجہ پالیسی پر نسبتاً کم وقت صرف کیا، لیکن چند اہم نکات کا ذکر کیا:
یوکرین کے ساتھ معدنی وسائل کے حصول کا نیا معاہدہ، جس میں امریکہ کو یوکرین کی قیمتی معدنیات تک رسائی حاصل ہوگی۔
مشرق وسطیٰ میں داعش کے ایک بمبار کی گرفتاری، جسے ٹرمپ انتظامیہ اپنی بڑی کامیابی قرار دے رہی ہے۔چین اور روس پر کوئی سخت موقف اختیار نہ کیا، جس پر بعض ناقدین نے انہیں کمزور خارجہ پالیسی اپنانے کا طعنہ دیا۔
ٹرمپ نے اپنی تقریر میں ڈیموکریٹس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ان کی پالیسیاں امریکہ کو کمزور کر رہی ہیں۔کئی ڈیموکریٹ ارکان نے ٹرمپ کی تقریر کے دوران واک آؤٹ کیا۔بعض ڈیموکریٹس نے احتجاجاً گلابی رنگ کے لباس پہن رکھے تھے، جو خواتین کے حقوق اور لبرل ایجنڈے کی حمایت کا اظہار تھا۔ڈیموکریٹ رہنما چک شومر نے بعد میں کہا کہ ٹرمپ کی تقریر انتشار اور تقسیم پر مبنی تھی۔
صدر ٹرمپ کی تقریر پر امریکی عوام اور سیاستدانوں کے درمیان ملا جلا ردعمل دیکھنے میں آیا۔
انہوں نے تقریر کو ایک مضبوط، قوم پرست اور “امریکہ فرسٹ” پالیسیوں کی علامت قرار دیا۔اقتصادی اصلاحات اور حکومتی اصلاحات کو خاص طور پر سراہا۔
ڈیموکریٹس کے ردعمل میں انہوں نے تقریر کو “حقائق سے خالی” اور سیاسی تماشا قرار دیا۔بعض ڈیموکریٹس کا کہنا تھا کہ ٹرمپ نے مہنگائی، صحت عامہ اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے بڑے مسائل کو نظر انداز کیا۔
عوامی سروے کے مطابق، تقریر کے بعد 55٪ امریکی ٹرمپ کی معاشی پالیسیوں سے متفق نہیں تھے۔
ٹرمپ کی یہ تقریر ان کی دوسری مدت صدارت کے ایجنڈے کو واضح کرتی ہے۔ انہوں نے حکومتی اصلاحات، ٹیکس میں چھوٹ، سماجی معاملات میں قدامت پسندانہ پالیسیوں، اور ڈیموکریٹس پر شدید تنقید کو اپنی تقریر کا محور بنایا۔ تاہم، کئی اہم معاملات جیسے صحت عامہ، ماحولیاتی تبدیلی، اور عالمی تنازعات پر انہوں نے زیادہ توجہ نہیں دی۔
یہ تقریر ٹرمپ کے حامیوں کے لیے متاثر کن تھی، لیکن ان کے ناقدین کے خدشات کو بھی تقویت ملی کہ ان کی قیادت مزید پولرائزیشن یعنی تقسیم کو بڑھا سکتی ہے۔
اب دیکھتے ہیں 2026 کے وسط مدتی انتخابات میں ٹرمپ کی تقریر کو ووٹز کس طرح دیکھیں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button