دوہری شہریت: 1116 افسرجبکہ ایک ہزار 2 سو 49 افسران کی بیگمات غیر ملکی یا دوہری شہریت کی حامل ہیں
چئیرمین نادرا عثمان مبین نے عدالت عظمیٰ میں دوہری شہریت کی رپورٹ پیش کر دی ، دوہری شہر یت رکھنا قانونی طور پر کوئی جرم نہیں ،چھپاناجرم ہے، چیف جسٹس
دوہری شہریت والے افراد رکنِ پارلیمنٹ نہیں بن سکتے ،جبکہ سرکاری افسر ان کے حوالے سے دوہری شہری کا قانون خا موش ہے، کیا ارکان اسمبلی کے ساتھ تعصب تو نہیں برتا جا رہا ؟
اسلام آباد (خصوصی رپورٹ)عدالت عظمیٰ نے اعلیٰ عدلیہ اور اعلی سرکاری افسران کی دہری شہریت سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران بدھ کوسیکرٹری دفاع کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے ا فواج پاکستان میں دہری شہریت کے حامل افراد سے متعلق تفصیلات طلب کرتے ہوئے انہیں ذاتی طور پر پیش ہونے کی ہدایت کی ہے جبکہ وفاقی سیکرٹری داخلہ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے دہری شہریت کے حامل افراد کے حوالے سے موجودہ قانون سے متعلق رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے ،جبکہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہیں کہ دوہری شہریت کے حوالے سے فوج کے معاملات بھی دیکھیں گے،چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمرعطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے منگل کے روز ججز اور سرکاری افسران کی دوہری شہریت سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کی تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کئی افسروں نے تاحال اپنی دہری شہریت چھپائی ہوئی ہے، ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔ روز نامہ جنگ کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ چیئر مین نادرا عثمان مبین نے عدالت میں رپورٹ پیش کی کہ اس وقت1116 افسر غیر ملکی یا دہری شہریت رکھتے ہیں، جبکہ ایک ہزار 2 سو 49 افسران کی بیگمات غیر ملکی یا دوہری شہریت کی حامل ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا دوہری شہر یت رکھنا قانونی طور پر کوئی جرم نہیں ،چھپاناجرم ہے، انہوں نے مزید کہا کہ دوہری شہریت والے افراد رکنِ پارلیمنٹ نہیں بن سکتے ،جبکہ سرکاری افسر ان کے حوالے سے دہری شہری کا قانون خا موش ہے، کیا اس قانون کے ذریعے ارکان اسمبلی کے ساتھ تعصب تو نہیں برتا جا رہا ؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کئی حساس دفاتر میں بھی دوہری شہریت کے حامل افسر موجود ہیں، کئی ججز بھی دوہری شہریت کے حامل ہیں، اگلے مرحلے میں پاک فوج کے حوالے سے بھی تفصیلات لیں گے اور تفصیلات لے کر معاملہ حکومت کو بھجوایا جائے گا،انہوں نے کہا کہ کئی سرکاری افسران تو پاکستان کے شہری ہی نہیں ، تاہم اب عدالتی معاونین شاہد حامدایڈوکیٹ اورشہزاد عطا الٰہی ایڈووکیٹ کو عدالت کو بتانا ہے آیا کہ یہ معاملہ عدالت نے دیکھنا ہے یا پھر حکومت کو بھجوایا جائے،دوران سماعت عدالتی معاون شاہد حامد نے بتایا کہ قائد اعظم محمد علی جناح ناپسند کرتے تھے کہ پاکستان کے کسی سرکاری ادارے میں کوئی غیر ملکی خدمات سرانجام دے ،1953میں قانون بنایا گیا تھا کہ پانی و بجلی ،او جی ڈی سی ایل اور محکمہ توانائی میں غیر ملکیوں کے خدمات سرانجام دینے کے خلاف قانون بنایا گیا تھا ، جس کے بعد 1973کے ا?ئین میں اراکین پارلیمنٹ اور اراکین صوبائی اسمبلی کیلئے بھی یہ پابندی عائد کی گئی تھی ،ایک اور عدالتی معاون شہزاد عطا الٰہی نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ججوں کے حوالے سے بھی کوئی قانون نہیں ،انہوں نے اس حوالے سے حلف بھی پڑھ کر سنائے ،اور مزید کہا کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں ایسا نہیں ہے کہ دوہری شہریت کا حامل شخص ایک ملک میں وزیر اعظم یا وزیر ہو اور دوسارے ملک میں کوئی اور نوکری بھی کررہا ہو،جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اسطرح تو دوہری شہریت کا حامل کوئی بھی شخص چیف جسٹس بن سکتا یا اٹامک انرجی کے ادارے میں بھی ا?سکتا ہے ، عدالتی معاون شاہد حامد نے کہا کہ حساس اداروں کے افسران ریٹائرڈ ہونے کے بعد دوسرے ملکوںمیں جاکر وہاں کی شہریت لے لیتے ہیں، بعض ایسے اعلیٰ افسران بھی ہیں جنہوںنے ریٹائرڈ ہونے کے بعد دیگر ملکوں میں سیٹل ہونے کیلئے شہریت حاصل کی ہے ،اس حوالے سے کسی قسم کی کوئی پابند ی نہیں ،انہوںنے بتایا کہ پاکستان کا کوئی بھی شہری پاکستانی شہریت کے ساتھ ساتھ 19 ممالک کی شہر یت بھی رکھ سکتا ہے ، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا دوہری شہریت والوں کو بیرونِ ملک وہی حقوق حاصل ہوتے ہیں جو بطور پاکستانی حاصل ہوتے ہیں جس پر انہوںنے کہا کہ انہیں حقوق کا علم نہیں۔