اگر ہم دنیا میں بتدریج مضبوط ہوتی معیشتوں کا مطالعہ کرے تو ایک حقیقت ضرور ہمارے سامنے آ کھڑی ہوگی کہ ان ممالک نے جو بھی سیاسی نظام اپنے ہاں رائج کیا ہوا ہے وہ اس نظام پر ایک طویل عرصے سے عمل پیرا ہے اور سیاسی مخالفت چاہے جس مرضی بلندی کو چھولے مگر نظام کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا ہے اور اسی سبب سے ان کی سیاسی بنیادیں ٹھوس ہیں اور ٹھوس سیاسی بنیاد ہی مضبوط معیشت کی اساس ہوتی ہے ۔ وطن عزیز میں اس وقت معیشت کی تنزلی کی وجہ سے عام آدمی سخت مشکلات کا شکار ہیں اور وہ کسی بھی جانب سے ریلیف کا منتظر ہیں ۔
ریلیف فوری طور پر دی بھی جا سکتی ہے جس کے لئے قلیل المدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے مگر یہ عارضی سہارا ہی ثابت ہوگا ۔ اور دوبارہ سے یہ مصیبت پھر گلے پڑ جاۓ گی ۔ اس لئے ضروری ہے کہ دنیا بھر کے آزمودہ نسخہ کو معیشت کی بحالی کیلئے استعمال میں لایا جائے اور سیاسی نظام کو مضبوط ہونے دیا جائے ڈاکٹرائن یا کسی دوسرے نام سے اس کو کچوکے نہ لگائے جاۓ ۔ کیوں کہ یہ انہی کچوکوں کی وجہ سے ہے کہ جولائی دو ہزار سترہ میں جمہوریت کو کچوکا لگایا گیا اور اچھی بهلی چلتی منتخب حکومت پر عدالتی شب خون مار دیا گیا جو کہ در حقیقت ریاست پر شب خون ثابت ہوا ۔
جب تک معاملات کو وہیں سے دوبارہ جوڑا نہیں جاتا ہے اس وقت تک یہ گمان کر لینا کہ سیاست ، معیشت کسی بہتری کی جانب گامزن ہوجاۓ گی احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہوگا ۔ جب جولائی دو ہزار سترہ سے منقطع سلسله جوڑنے کی بات کی جاتی ہے تو اس سے یہ واضح طور پر مطلب اخذ کیا جاتا ہے کہ اس وقت کئے گئے “عدالتی فیصلوں ” کے بد اثرات سے قوم کو نجات دلائی جائے اور جو زبردستی طور پر نواز شریف کو سیاسی عمل سے جدا کر دیا گیا تھا اب دوبارہ سے ایسے اقدامات نہ کئے جاۓ کہ وہ پاکستان کے سیاسی عمل سے دور رہے اور ان کو اپنی جماعت کی انتخابی عمل میں مکمل طور پر قیادت کرنے دینی چاہئے ۔ کسی بھی جانب سے اس میں ڑوڑے اٹکانے کی کوشش در حقیقت یہ ہوگی کہ پاکستان کو سیاسی نظم سے دور رکھا جائے اور جس کا لامحالہ یہ نتیجہ بر آمد ہوگا کہ معیشت مزید ہچکولے کھانا شروع ہو جاۓ گی ۔
اگر انتخابات آزادانہ اور منصفانہ ہو گئے تو اس امر میں کسی شبہ کی گنجائش موجود نہیں ہے کہ اگلی حکومت نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ ن قایم کرے گی اور اس وقت اس نو منتخب حکومت کو بھی سب سے بڑا یہ چیلنج ہی درپیش ہوگا کہ قومی معیشت کو اپنے پیروں پر دوبارہ سے کیسے کھڑا کیا جائے کیوں کہ اس وقت عوام کے لئے دال روٹی چلانا بھی مشکل ہو چکا ہے اور یہ ایک قومی نوعیت کا مسئلہ درپیش ہیں ۔ ان حالات سے قوم کو گلوخلاصی دینے کیلئے آیندہ قایم ہونے والی سیاسی حکومت پر اور اس کی فہم و فراست پر زبردست ذمہ داری عائد ہوگی ۔
جب پی ڈی ایم کا قیام عمل میں لایا گیا تھا تو اس وقت اس کی بنیادی وجوہات میں ملک کی بگڑتی معاشی صورتحال شامل تھی ۔ اس لئے اب پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں اور پی پی پی کو معاشی معاملات پر يكجا ہونے کی ضرورت ہے ۔ انتخابی میدان سجنے کے بعد جب یہ جماعتیں پارلیمان میں پہنچ جاۓ تو ان کو چاہئے کہ یہ ایک مشترکہ معاشی پالیسی کو مرتب کرے ۔ باالفاظ دیگر میثاق معیشت کو تیار کرے اور اس پر قایم رہنے کا عہد بھی کرے چاہے مستقبل میں سیاسی اختلافات کی جتنی مرضی شدت ، حدت ہو اور اس میثاق معیشت کا آئندہ دور میں ہونے کا امکان اس لئے بھی زیادہ ہے کہ اس نظریہ کو نواز شریف نے ہی پیش کیا تھا اور امکان غالب ہے کہ آئندہ حکومت کے سربراه بھی وہ ہی ہونگے ۔
مثالی صورت حال تو آئندہ انتخابات کے بعد یہ ہوگی کہ جیسے ابھی تمام حقیقی سیاسی قوتوں کی مسلم لیگ ن کی قیادت میں اتحادی حکومت قایم تھی اسی نوعیت کی اتحادی حکومت ہی قایم ہو تا کہ سیاسی کشیدگی کا امکان کم سے کم ہو اور سیاسی کشیدگی کے سبب سے جو منفی اثرات قومی معیشت پر اثر انداز ہوتے ہیں ان سے ممكنه حد تک قومی معیشت کو محفوظ رکھا جا سکے ۔ اتنی بالغ نظری کی قوم بجا طور پر سیاسی قیادت سے توقع رکھتی ہے ۔
مگر قوم یہ اچھی طرح سے جانتی ہے کہ سیاست دانوں کی آواز ایک ہونے کے باوجود بھی جب تک ان کے تیار کردہ اقتصادی بحالی کے روڈ میپ یعنی کہ میثاق معیشت کی بقا اور سلامتی کے لئے امر لازم ہے کہ اس کو مقتدر حلقوں کی بھی مکمل طور پر حمایت حاصل ہو اس لئے ایسی کسی معاہدہ کو اس وقت تک مکمل ہی نہیں کیا جا سکتا ہے جب تک مقتدر حلقے اس میں ساتھ دینے کیلئے مکمل طور پر تیار نہ ہو جاۓ ۔ پاکستان کے قیام کے وقت تو قائد اعظم اور قائد ملت جیسی طاقت ور شخصیات اقتدار میں تھی اس لئے اس وقت تو مقتدر حلقوں کی اہمیت اتنی ہی تھی کہ جتنی جمہوری حکومت میں ہونی چاہئے مگر ان کے بعد یہ اہمیت بڑھتی ہی چلی گئی مگر اس میں ہمیشہ ایک اختلاف ہی سامنے نظر آتا رہا مگر ہم نے دیکھا کہ گزشتہ پی ٹی آئی کی حکومت کو مکمل طور پر ایک صفحہ ميسر تھا یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ اس ایک صفحہ کو صرف اپنی ذاتی اغراض کو پورا کرنے کیلئے استعمال کرتے رہے ۔
مگر اب آئندہ کی حکومت کو بھی یہ ہی ایک صفحہ حاصل ہونا چاہئے اور اس کے مقاصد میں قومی معیشت کی بحالی سر فهرست ہو کیوں کہ اگر ایک صفحہ ميسر نہ آیا تو قومی معیشت کی بحال بس ایک خواب ہی رہ جاۓ گا اور آخر کب تک عوام ان مشکل حالات کی چکی میں چپ چاپ پستے رہیں گے کسی وقت بھی یہ احساس محرومی زبردست طور پر آتش فشاں بن جاۓ گا اور پھر اس کے آگے کوئی بند نہیں باندھ سکے گا ۔