پاکستان کی خارجہ حکمت عملی کو طے کرنے والے سرکردہ افراد کے سامنے ایک سوال پوری شدومد کے ساتھ کئی سال سے کھڑا ہے کہ پاکستان کو وہ کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے کہ جس کے ذریعہ سے وہ چین اور امریکہ دونوں عالمی طاقتوں سے اپنے تعلقات میں توازن کو قائم رکھ سکے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ سوال مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے اور جیسے جیسے اس کی گہرائی بڑھتی چلی جارہی ہے پاکستان کے لیے بھی مسائل میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اور بدقسمتی کا امر یہ ہے کہ ان مسائل میں اضافہ اس وجہ سے زیادہ شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے کہ پاکستان ایک سیاسی تجربے کے سبب سے شدید معاشی مشکلات کا بھی شکار ہو چکا ہے۔
پاکستان معاشی مشکلات سے گلو خلاصی پانے کی غرض سے جہاں پر چین اور کچھ مسلمان ممالک کی جانب دیکھنے پر مجبور ہے وہی پر اس کی نگاہیں امریکہ اور اس کے زیر اثر عالمی مالیاتی اداروں پر بھی ٹکی ہوئی ہے اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ان میں سے ایک مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ ایسا رویہ روا رکھا ہوا ہے کہ جس کی ماضی میں کوئی نظیر تلاش کرنا ممکن نظر نہیں آتا ہے۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے ؟ وجہ یہی تصور کی جا رہی ہے کہ امریکہ یہ مکمل طور پر پاکستان کو احساس دلانا چاہتا ہے کہ پاکستان کو اپنی ضروریات کی غرض سے امریکہ کی جانب دیکھنا ہی پڑے گا اور وہ امریکہ سے بے نیاز ہو کر فیصلے نہیں کرسکتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ سے بے نیازی پاکستان چاہتا بھی ہے ؟ اور کیا چین کی خواہش ہے کہ پاکستان امریکا سے تعلقات کو پاک چین دوستی پر قربان کر دیں ؟ میری طے شدہ رائے ہے کہ چین کی یہ قطعی طور پر خواہش نہیں ہے کہ پاکستان اپنے امریکہ سے جڑے مفادات کو پاک چین دوستی پر نثار کردے۔ چین پاکستان کو اس نظر سے دیکھتا ہی نہیں ہے کہ وہ یہ چاہے کہ پاکستان چین اور امریکا کے درمیان کسی کشمکش کا حصہ بن جائے۔یہ پاکستان اور چین دونوں کے مفاد میں بھی سرے سے نہیں ہیں۔ مگر پھر امریکہ میں یہ تصور کیوں دن بدن مضبوط ہو رہا ہے کہ پاکستان اپنے تمام مفادات کی کڑیاں چین سے جوڑ لینا چاہتا ہے۔
خیال رہے کہ امریکہ میں بھی پاکستان کے حوالے سے منفی سوچ کا مضبوط ہونا پاکستان کے ہر طرح کے مفادات کے لیے از حد نقصان دہ ہے۔ اس منفی سوچ کا تدارک فی الفور درکار ہے۔اس کا تدارک کون کریگا ؟ ظاہر سی بات ہے کہ پاکستان کی خارجہ حکمت عملی بنانے والے ، آداف کو طے کرنے والے ، اور جب امریکہ میں یہ منفی تصور مضبوط ہو رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ذمہ داریاں ادا کرنے میں کم سے کم تساہل سے ضرور کام لیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں بنیادی طور پر ذمہ داری یہ ہے کہ امریکہ کو یہ باور کروا دیا جائے، اس کو اس حوالے سے انگیج کیا جائے کہ پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ اس کے چین اور امریکہ سے تعلقات میں توازن قایم رہنا چاہئے اور اس توازن میں بگاڑ کی کبھی چین نے خواہش بھی نہیں کی ہے۔ لیکن جب سے پاکستان اس خارجہ پالیسی کے چیلنج سے نبرد آزما ہیں اس وقت سے ہی پاکستان نے امریکہ کو اس حوالے سے آن بورڈ لینے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی ہے۔
ممکن ہے کہ اس حوالے سے یہ تصور ہو کہ یہ ایک بہت مشکل ہدف ہے تو مشکل اہداف کو حاصل کرنا ہی اصل کامیابی ہے ورنہ عمومی نوعیت کی سفارت کاری تو پوری دنیا میں سفارت خانے کرتے ہی رہتے ہیں۔ امریکہ یہ خیال کرتا ہے کہ چین پاکستان کو قرضوں کی خارجہ پالیسی کے ذریعے اپنے سامنے بے دست و پا کرنے کی حکمت عملی پر کاربند ہے اور وہ اس حوالے سے سری لنکا کی مثال پیش کرتے ہیں۔ پھر کہا جاتا ہے کہ سری لنکا ، سوڈان ، ڈی جیبوتی سے آبنائے ?رمز تک چینی اقدامات اور آداف اس بات کا تعین کر رہے ہیں کہ وہ پاکستانی ساحلوں پر بھی اپنی فوجی موجودگی کو یقینی بنائے گا۔ حالا اگر ہم سی پیک کے لئے حاصل کیے گئے قرضوں اور ان قرضوں کی واپسی ادائیگی کے اوقات کار پر نظر دوڑائے تو یہ صاف طور پر محسوس ہوگا کہ پاکستان کو سی پیک کے حوالے سے لیے گئے قرضوں سے ایسا کوئی خطرہ درپیش نہیں ہو سکتا ہے۔ میں نے جس امریکی خدشے کا ذکر کیا ہے کہ قرضوں کی خارجہ پالیسی یہ کوئی عام امریکی کا استدلال نہیں ہے بلکہ سابق اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ برائے جنوبی ایشیا آلس ویلز جو کبھی اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے میں تعینات تھی اور اس وقت سے میری ان سے شناسائی ہے اکثر اس کی تکرار کیا کرتی تھی ، یہ صرف ایک مثال ہے ایسی متعدد مثالیں پیش کی جا سکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اس حوالے سے دوٹوک حکمت عملی کو ترتیب دے اور امریکہ کے بھی خدشات کو رفع کرے ، یہ مشکل ضرور ہے مگر نا ممکن نہیں اگر ہدف حاصل کرنے کا جذبہ ہو۔