صدر بائیڈن کی چینی صدرشی سے ملاقات
صدر جو بائیڈن کی چینی صدر شی سے اہم ملاقات ، ملاقات سے کسی بہت بڑے بریک تھرو کی توقع تو قائم نہیں کی جا سکتی تھی مگر برف پگھلنے اور تلخی کی بجائے باہمی گفت و شنید کے امکانات کی بحالی ضرور اس ملاقات کا بہت گہرا مثبت نتیجہ ہے
تحریر : محمد مہدی ( لاہور )
عالمی منظر نامے پر خوشگوار ہوا کا جھونکا آیا ہے۔ جب جھونکے آنے لگتے ہیں تو پھر اس کی امید بندھ جاتی ہے کہ منظر مستقل طور پر سہانا ہو جائے گا . بالی ، انڈونیشیا میں جی 20 کے اجلاس میں امریکی اور چینی صدور کی ملاقات ہوئی۔ یہ صدر بائیڈن اور صدر شی کی پہلی ملاقات تھی خاص طور پر ان حالات کے تناظر میں تو اس پہلی ملاقات کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی تھی کہ جب امریکی سپیکر نینسی پلوسی نے گزشتہ اگست میں تائیوان کا دورہ کیا تھا اور اس کے بعد دونوں ممالک کے مابین بد گمانی بہت بڑھ گئی تھی۔ مختلف امور جیسے موسمیاتی تبدیلی ، فوڈ سیکورٹی اور صحت وغیرہ کے مسائل پر ہوتی بات چیت تعطل کا شکار ہو گئی تھی۔ ان حالات میں اس ملاقات سے کسی بہت بڑے بریک تھرو کی توقع تو قائم نہیں کی جا سکتی تھی مگر برف پگھلنے اور تلخی کی بجائے باہمی گفت و شنید کے امکانات کی بحالی ضرور اس ملاقات کا بہت گہرا مثبت نتیجہ ہے۔
دونوں ممالک کے مابین بہت سارے اہم معاملات پر نقطہ نظر کا اختلاف موجود ہے اور اس اختلاف کی موجودگی میں ہی دونوں رہنماو¿ں نے ملاقات کی تاکہ تائیوان ، ایڈوانس ٹیکنالوجی پر امریکی اقدامات ، شمالی کوریا کے طویل ہدف کو نشانہ بنانے کے لئے ایٹمی تجربات کے امکانات اور یوکرائن جنگ کے حوالے سے ایک دوسرے کی بات سنیں اور اپنی بات سنائی جا سکے۔ جیسا کہ ذکر کیا ہے کہ تائیوان کے مسئلے پر گزشتہ اگست کے نینسی پلوسی کے دورہ تائیوان نے بہت غیر معمولی اثرات مرتب کئے تھے۔ چین بجا طور پر اس حوالے سے بہت زیادہ چوکنا ہوگیا۔ اس لیے اس ملاقات کے دوران بھی صدر شی نے صدر بائیڈن پر واضح کردیا کہ تائیوان کا معاملہ چین کے لئے پہلی سرخ لکیر کا درجہ رکھتا ہے جو کہ کسی صورت بھی عبور نہیں ہونی چاہیے۔ امریکہ نے امریکا کی ون چائنہ پالیسی کا اعادہ کیا ہے۔ چین کو اصل یہ مسئلہ درپیش ہے کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ امریکہ ون چائینہ پالیسی کے اصول کو تو تسلیم کرتا ہے مگر اس کے اقدامات اس کی پالیسی سے میل نہیں کھاتے ہیں۔
درحقیقت ضرورت اس بات کی ہے کہ امریکہ چین کے ان شکوک کو مکمل طور پر رفع کریں کہ امریکہ کی پالیسی اور اقدامات میں فرق ہیں۔ صدر بائیڈن نے درست طور پر کہا ہے کہ امریکا اور چین کی باہمی مسابقت کشمکش میں تبدیل نہیں ہونی چاہئے اور یہ کہ چین اور امریکا کے مابین اختلافات ایسے نہیں ہیں کہ جو حل نہ کیے جا سکے اور دونوں مل کر عالمی معاملات کو حل نہ کر سکیں۔ صدر شی نے بھی بہت امید افزا بات کی ہے کہ موجودہ صورتحال دونوں ممالک کے عوام کے مفاد کے منافی ہے۔ اعلیٰ ترین سطح پر اس نوعیت کی گفتگو صدر بائیڈن کی اس بات کی تائید کرتی ہے کہ عالمی معاملات میں دونوں ممالک مشترکہ تفہیم کی جانب بڑھ سکتے ہیں۔ اور اس کا ایک مظاہرہ یوکرین میں جاری حالیہ جنگ کے حوالے سے دونوں رہنماو¿ں نے کیا بھی ہے جب انہوں نے ایٹمی ہتھیاروں کے کسی بھی استعمال کو ناقابل قبول قرار دے دیا اور با الفاظ دیگر روسی صدر پیوٹن کو واضح پیغام دے دیا کہ اس قسم کی فضول گفتگو میں چین بھی روس کا ساتھ دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ چین نے وہ مشورہ دیا ہے کہ جو اس بحران کو ختم کرنے کے لیے سب سے صائب ہے کہ امریکہ، نیٹو اور یورپی یونین کو روس سے بات چیت کر کے مسئلے کا حل تلاش کرلینا چاہیے۔ شمالی کوریا کا معاملہ بھی دنیا کے لیے ایک غیر معمولی طور پر اہمیت رکھتا ہے۔
شمالی کوریا کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات کے حوالے سے امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو امریکہ کو شمالی کوریا کے نزدیکی خطے میں اپنی فوجی موجودگی کو بڑھانا پڑے گا اور ایسی صورت یقینی طور پر چین کے لیے تشویش کا باعث بن جائے گی اس لئے صدرشی سے صدر بائیڈن نے اس حوالے سے چینی اثرورسوخ استعمال کرنے کی بات کی ہے تاکہ ایسی صورت حال مستقبل میں وقوع پذیر نہ ہو جو کہ چین اور امریکہ کے تعلقات کو باہمی کشیدگی تک لے کر چلی جائے۔
سخت اور تلخ حالات میں بھی مملکت کے اعلیٰ ترین عہدے داروں کا رویہ ایسا ہونا چاہیے کہ وہ بہتری کے امکانات کو تلاش کرسکیں مگر افسوس کے ہم ایسا رو?? یہاں وطن عزیز میں نہیں دیکھ پا رہے ہیں۔ ویسے تو اصولی طور پر بری فوج کے سربراہ کی تعیناتی ایک عمومی معاملہ ہونا چاہیے کہ جیسے دنیا کے دیگر جمہوری ممالک میں ہیں مگر عمران خان نے اس کو چوکوں ، چوراہوں کا معاملہ بنا دیا ہے کہ جیسے وہ اہلیت کے پیمانے خود طے کریں گے مگر زیادہ تشویشناک خبر یہ ہے کہ صدر عارف علوی بھی روڑے اٹکانے اور رخنے ڈالنے کے حوالے سے پر تول رہے ہے۔ ایسا کسی صورت تصور بھی قائم نہیں ہونا چاہیے کہ ملک کا سب سے اعلی عہدے دار ایسا کرنے کا سوچ بھی سکتا ہے۔ کیوں کہ ان سے ایسا جو کروا رہا ہے وہ اچھی طرح سے جانتا ہے کہ معاملات صرف توشہ خانے کی چوریوں تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ انڈیا نے کشمیر میں جو کچھ کیا ہے اس حوالے سے انہوں نے امریکہ میں بیٹھ کر کیا یقین دہانی کروائی تھی سب واقعات اور کردار کھل کر سامنے آجائیں گے اور اس سے گلو خلاصی نہیں ہوگی اور اسی سے بچنے کے لئے بچپنا دکھاتے ہوئے ہر ہتھکنڈہ استعمال کیا جا رہا ہے۔