خوش قسمتی کہیے یا بدقسمتی کہ اسی زندگی میں آنکھوں پر پڑے سب پردے ایک ایک کر کے اتر رہے ہیں۔اور ہر پردے کے بعد سوچتے ہیں یہ شاید آخری ہو مگر نہیں جی۔۔۔
محترمہ عارفہ سیدہ صاحبہ!
ایک مہربان دوست نے ہمیں اس محفل میں مدعو کر لیا جس کے شاید ہم قابل نہیں تھے کیونکہ آپ جیسی عالم فاضل شخصیت جو دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پرشہرت کی بلندیوں کو چھونے لگی ہیں اس تقریب کی مہمان خصوصی تھیں۔ میزبان نے آپ کا مکمل تعارف کرایا جس سے ہمیں پتہ چلا کہ آپ سات زبانوں کی ماہر، ہیومن رائٹس کی چیمپئن،حق اور سچ بات کہنے اور سننے کی ہمت رکھنے والی خاتون اور بہت زیادہ تعلیم یافتہ ہیں۔
آپ لاہور کالج کی پر نسپل بھی رہ چکی ہیں۔آ پ پوڈیم پر تشریف لائیں اور آتے ہی کہا میں تو بس پاکستان کی ایک معمولی سی شہری ہوں اور جو بھی میرا تعارف کرایا گیا ہے یہ کسی کا بھی ہو سکتا ہے۔آپ کی کسی اور بات سے میں اتفاق کر وں یا نہ کر وں لیکن آپ کے لیکچر کے اختتام تک میں آپ کی اس بات سے سو فی صدی متفق ہو چکی تھی ۔کیوں۔۔۔۔۔۔ آپ بھی دیکھئے۔۔۔۔
جس پہلی چیز نے آپ کے اس “معمولی ” ہونے والی بات کی تائید کی وہ یہ تھی کہ بچارے میزبان نے انتہائی عزت و احترام سے آپ کے لئے ایک شاندار سی کر سی سٹیج پر سجا رکھی تھی، مگر آپ نے بغیر کوئی مناسب وجہ بتائے بس وہاں بیٹھنے سے انکار کردیا جس کی وجہ سے وہاں پہلے سے نصب شدہ مائیک وغیرہ ہٹانا پڑے ا ور ان کو اس پو ڈیم پر لگایا گیا جن کے پیچھے جا کرآپ خود ہی کھڑی ہو گئی تھیں۔ پھر میزبان نے مودبانہ درخواست کی کہ اگر ایسے ہی کر نا ہے تو کم از کم مجھے باقا عدہ تعارف تو کروا لینے دیں جسے آپ نے باد ل نخواستہ قبول کیا۔
اس سب ادل بدل کی وجہ سے فنکشن شروع ہو نے میں مزید تاخیر ہو ئی، اور وہ “اوور سیز پاکستانی “جو جمعہ والے دن کام کاج سے جلدی نکل کر وہاں وقت پرپہنچے ہو ئے تھے ان کے لئے انتہائی کوفت کا باعث بنی مگر اتنی شگفتہ اور شائستہ مہمان کو سننے کی خوشی میں وہ یہ کوفت بھول بیٹھے۔
پھر جب آپ کے تفصیلی تعارف والا مر حلہ طے ہو گیا تو آپ کمال پھرتی سے پو ڈیم پر دوبار ہ تشریف لائیں اور خود کو” معمولی انسان “کہتے ہو ئے بڑی “رعونت” سے بولیں؛” وہ صاحب جو مجھے لائے ہیں مجھے ان کا نام نہیں پتہ”۔ یہ بات سنتے ہی میں چونک گئی، یہ بات کسی اور کے لئے معمولی ہو سکتی ہے میرے لئے نہیں، کیونکہ میں نے تو آج تک یہی پڑھا اور سیکھا ہے کہ جو آپ کو بغیر کسی مادی غر ض کے عزت دے، آپ پر احسان کر ے،آپ اس کو ہمیشہ یاد رکھیں۔ ذراسوچیے !جو شخص آپ کو لینے اتنی دور گیا جس کے ساتھ آپ نے کوئی گھنٹہ یا آدھے گھنٹے کا سفر طے کیا، جو آپ کو عزت و احترام کے ساتھ ہال کمرے کے اندر لے کر آیا۔ جس نے بقول آپ کے آپ کی “پذیرائی “کے لئے یہ سب کیا ورنہ تو آپ خود بھی آسکتی تھیں، آپ نے اس انسان کا نام تک جاننے کی کوشش نہیں کی؟ وہ انسان تھا یا کوئی نمبر تھا؟۔ پھر آپ نے میٹھی میٹھی تذلیل کے بعد اس کاہلکا سا شکریہ بھی ادا کردیا، جو میرے نزدیک ایک بے معنی بات ہو کر رہ گئی تھی۔
میزبان کے آپ سے کئے گئے سوال کہ” ہمارے ہاں تعلیم تو ہے تربیت کہاں ہے” کا جواب مجھے آپ کی باتوں اور انداز سے فوری مل بھی گیا مگر آخر تک بیٹھنا آداب ِ مہمانی تھے سو ہم بیٹھے۔
آپ نے،خود کو نوجوانوں کا وکیل کہتے ہو تے فرمایا؛” ان کی نسل اوران کے بعدکی نسل (یعنی ان کے طالبعلموں کی نسل) آج کے نوجوانوں کی بر بادی کی ذمہ دارہے کیونکہ ان بچوں نے تو وہی کیا جو ان کو کر نے کا کہا گیا” ۔آپ کے اس فارمولے کو لے کر آگے چلیں تو ہر دو صورتوں میں آپ خود ہی نوجوانوں کی اخلاقیات کی بر بادی کی ذمہ دار نکلتی ہیں ایک تو یہ کہ آپ ایجوکشینسٹ رہ چکی ہیں، استاد رہ چکی ہیں لاہور کے بہترین کالجز کی استاد اور پر نسپل رہ چکی ہیں اور پھر آ پ کی تعلیم و تربیت سے مستفید ہو کر ہم جیسی لاکھوں لڑکیاں مائیں بنیں اور آگے سے انہوں نے وہ نوجوان نسلیں تیار کیں جن کے بارے میں اب یہ کہا جا رہا ہے کہ ان کی تربیت خراب ہے۔یعنی خدا نے آپ کو تربیت کر نے کے دو مقامات کے کنڑ ول کا موقع دیا اور آپ اس پر ڈٹ کر بیٹھی اپنی تنخواہ تو لیتی رہیں مگر ریٹائرمنٹ کے بعد اب آ پ بچوں کی خرابی تربیت کا ذمہ دار کسی ان دیکھی طاقت کو ٹھہرا رہی ہیں؟
لیکچر کے آغاز میں ہی آپ نے فرمایا کہ “کسی کا مکتوب تو ایک مقدس چیز ہو تی ہے اسے ایک” صاحب “نے لہرا لہرا کر اس کی بے حرمتی کر دی ہے(کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ان صاحب کی تربیت ٹھیک نہیں ہے۔۔۔وہ چور کوچور کہتا ہے اماں نے تربیت ٹھیک نہیں کی۔۔۔)۔
پھرفرمایا کہ” تکرار صرف اقتدار کی ہے۔ تربیت ہو گی تو مہلت دیں گے۔ “
آپ نے اشارو ں ہی اشاروں میں فرمایا کہ
“سیاست کے معنی معاشرے اور ریاست کی خدمت کر نا ہو تی ہے۔ سیاسی زندگی گزارنے کے لئے سنجیدہ تربیت چاہیئے۔”
ہم آپ کی لچھے دار گفتگو سے اشارے سمجھ ہی رہے تھے کہ خود ہی فرما دیا ہمارے وزیر ِ اعظم اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ اب والے نہیں، اِ س سے پہلے والے۔۔ تو بات اشارے کنایوں سے نکل کر ذاتی حملے میں داخل ہو گئی اس کے بعد کچھ ابہام باقی نہ بچا۔
آپ نے اس لیکچر میں چوری پر بڑی تفصیلی گفتگو کی مگر کسی کا نام نہیں لیا، عمران خان نے چوری کی ہو تی تو یقینا یہاں بھی نام لے کر بات ہوتی چونکہ ایسا کچھ ہے نہیں تو یہاں آپ کی تربیت نے یہ فیصلہ کیا کہ اب کسی چور کا نام نہ لیا جائے کیونکہ یہ بد تہذیبی ہوجائے گی اورذاتی حملے کوئی اچھی بات تھوڑی ہے۔
بس آپ نے اپنی تقریر کے بالکل آخر میں نواز شریف کے بارے میں فرمایا کہ” اب وہ محترم پاکستا ن منہ اٹھا کر یا پیٹ اٹھا کر نہ جانے کیوں آرہے ہیں۔۔۔”۔ تو آپ کا یہ انداز دیکھ اور سن کر پوچھنا یہ تھا کہ اگر یہ بات آج کا نوجوان اسی طرح دہرائے گا تو کیا اس کا الزام بھی عمران خان کے سر جائے گا؟۔
ایک بات جو اس شام کے میزبان نے آپ کے تعارف میں نہیں بتائی تھی مگر وکی پیڈیا نے بتا دی وہ یہ تھی کہ آپ2007میں پنجاب کابینہ میں نگرا ن وزیر بھی رہ چکی ہیں۔میری یاداشت میں یہ وہی سازشوں سے بھرا دور تھا جب پہلا این او آر دیا گیا تھا، بے نظیر کو مروا دیا گیا تھا اور پنجاب حکومت نون لیگ کو بخش دی گئی تھی اور اگلے دس سالوں تک ملک کو اندھیروں میں دھکیل دیا گیا تھا۔آپ ان فیصلہ ساز لمحوں میں پاکستان کی تاریخ کا عملی حصہ تھیں۔۔ یعنی قدرت نے قوم کی تربیت کا تیسر ا سنہری موقعہ بھی آپ کی جھولی میں ڈالاتھا،اس کے باوجود اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد آپ ہم جیسے عام پاکستانیوں کے ساتھ مل کر اس نظام پر انگلی اٹھارہی ہیں جس کو سدھارنے کے آپ کے پاس ایک نہیں تین تین مواقع تھے۔
یہی سوال جب آپ سے اسی ہال میں پوچھا گیا کہ آپ کس کو نوجوان نسل کی تربیت کی خرابی کا الزام دیں گی، گھر کو، سکول کو یا ریاست کو؟
تو آپ کے پاس جواب میں وہی میٹھے میٹھے طنزیہ جملے اور الفاظ کی جگالی تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ اصل میں،ہم خود ہی اپنے نوجوانوں کے گنہگار ہیں۔۔۔نہیں میڈم! ہم آپ کے عہدوں کے، عزتوں کے، مرتبوں کے، تنخواہوں کے حصے دار نہیں تھے اس لئے ہم اس بوجھ کے حصہ دار بھی نہیں بنیں گے۔ یہ آپ کی ذمہ داری تھی جو آپ نے نہیں نبھائی او ر ان آرمی آفیسرز کی طرح جو اپنی ریٹائرمنٹ کے بعدجنگوں کی شکست کے اسباب لکھتے ہیں تو اپنا دامن صاف بچا جا تے ہیں، آپ بھی اپنا آپ صاف بچا گئی ہیں۔۔۔
محترمہ سیدہ صاحبہ! آپ نے مولانا طارق جمیل کا تمسخر اڑاتے ہو ئے کہاکہ وہ حوروں کا قد ناپ آئے ہیں اور ساتھ ہمیں یہ بھی بتایا کہ ان کی ملبوسات کی دکان پر ازار بند ساڑھے پانچ سو کا ہے اوراس مہنگے ازار بند کی وجہ سے غریب اب خود کشی بھی نہیں کر سکے گا کیونکہ بچارے غریب کو تو اس کا یہی مصرف پتہ تھا اور جب یہی اتنا مہنگا ہو جائے گا تو وہ بد بخت اب مرے گا کیسے۔۔ “میرے لئے تو یہ بھی ایک انکشاف تھا کہ غریب ازار بند کو صرف مر نے کے لئے استعمال کرتا ہے۔۔۔
ڈاکٹر عارفہ صاحبہ،سامعین و ناظرین کے مختلف سوالوں کے جوابات میں آپ یہ کہتی رہیں کہ” میں کوئی کلیہ نہیں بناتی۔۔” میرے نزدیک تو آپ کا یہ کہنا ہی ایک کلیہ ہے۔ تھوڑی آگے چل کر آپ فرماتی ہیں کہ” مرد محبت کر ہی نہیں سکتا ہے۔۔” اس کو یقینا کلیہ نہیں تھاکہا جائے گا؟۔۔۔
میں اس خوف سے کہ بھرم کا آخری پر دہ بھی نہ چاک ہو جائے،آپ سے ڈرتے ڈرتے پوچھ بیٹھی کہ ” وہ اوورسیز پاکستانیوں کو کس نظر سے دیکھتی ہیں جب کہ اب تو ہمیں فارن ایجنٹ بھی کہاجارہا ہے اور دوسرا کہ پاکستان کی بہتری کے لئے تارکین وطن کو کیا کردار ادا کرنا چاہیئے؟۔
؎ آپ نے میرے سوال کے دوسرے حصے کو مکمل طور پرنظر انداز کرتے ہو ئے پہلے کا یہ جواب دیا کہ” آپ لوگوں کا پیسہ بڑا اچھلتا ہے اور آپ وہ پیسہ بھیج کر ہم پر بہت ظلم کرتے ہیں خدا کے واسطے وہاں پیسہ نہ بھیجیں۔آپ کے پیسے نے پاکستان میں بت بنا دئیے ہیں۔”
آپ کے اس جواب کو میں کسی ماہر معاشیات کی صوابدید پر چھوڑتی ہوں کیونکہ میری تربیت نے ایسے احمقانہ اور متعصب جواب پر مجھے شائستہ انداز میں جواب دینا سکھایا ہی نہیں اور میری برداشت ختم ہو نے کا الزام بھی عمران خان کے سر نہ جائے، اس لئے میں یہاں خاموشی اختیار کر نے کو تر جیح دوں گی۔
محترمہ! آپ ہی کی بتائی گئی بات کا فائدہ اٹھاتے ہو ئے،)جس کا ریفرنس آپ نے سورہ بقرہ سے دیا تھا کہ” خدا نے ہمیں قوت ِ تمیز عطا کی ہے اور اگر معاشرہ اسے پنپنے نہیں دے گا اس لئے نوجوانوں سے ناراض ہو نے کی گنجائش نہیں (“میں آپ کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ آپ کی اس بات سے وہاں بیٹھے ہوئے اکثر انسانوں کا دل بہت خراب ہوا ہے(جو نوجوا ن تو نہیں مگر اتنے بوڑھے بھی نہیں کہ ابھی وہ اپنی پینشن اور موٹیوشنل تقریروں سے اپنا گزارا اور لوگوں کا دل لبھا سکیں) کیونکہ ان انسانوں کا پیسہ اچھلتا نہیں بلکہ بڑی محنت سے کمایا ہوا ہو تا ہے۔ وہ،جب یہ پیسہ، پاکستا ن اپنے رشتہ داروں، یا دوستوں یا کسی امدادی کام کے لئے بھیجتے ہیں تو یہاں انہیں اپنی کتنی ضرورتوں کو مارنا پڑتا ہے۔۔ اور جن کے پاس ضرورت سے زیادہ پیسہ ہو تا ہے وہ بھی اس لئے نہیں ہو تا کہ انہیں کسی سے وفاداری کا یا خوشامد کا یا کسی ایجنڈے کو پروموٹ کر نے کا انعام مل رہا ہو تا ہے، و ہ بھی ان کی خون پسینے کی کمائی ہو تی ہے جس کو وہ پاکستان اس امید پر بھیجتے ہیں کہ وہاں کی میعشت کا پہیہ کبھی نہ رکے۔۔۔
آپ نے کہا تربیت کے معنی” اپنے آپ کو پہچاننے ” میں ہے۔ اسی کا مشور ہ میں آپ کو دوں گی، آپ خدارا، خود کو پہچانئے کہ آپ کون ہیں؟ آپ کو قدرت نے زندگی میں نبھانے کو اہم کردار دئیے،آپ نے کس کے ساتھ انصاف کیا؟۔
آج آپ جو بھی شگفتہ شگفتہ باتیں کر رہی ہیں یہ ملک تو آپ کو اس کا بھی پے بیک کر رہا ہے۔ آپ آ ج تک اس ملک سے لیتی رہی ہیں حالانکہ آپ نے بتایا کہ پچاس سا ل پہلے آپ نے ملک نہ چھوڑنے کا جو شعوری فیصلہ کیا تھا وہ ملک کا قر ض چکانے کے لئے کیا تھا تو کیا اب آپ یہ تسلیم کر لیں گی کہ آپ ملک کا قر ض نہیں اتار سکیں بلکہ یہ ملک ہی آپ کوبے تحاشا اور مسلسل دیتا جا رہا ہے۔
آپ کے پاس میرے ملک کو دینے کے لئے صرف دہائی توبچی ہے۔۔ کہ ہائے ہائے نقصان ہو گیا۔۔ کس نے کیا؟ اور اس کو ٹھیک کیسے کرنا ہے اس کا جواب ابھی تک آپ کے پاس نہیں ہے۔ پھر بھی ہم بھگوڑے اور ہم ملک کی خرابی کا باعث بھی ہم۔۔ ہم یعنی اوور سیز پاکستانی۔
ہمارے سوال ادھورے رہ گئے تھے۔ کیونکہ مہما ن کا احترام ہم پر واجب تھا شاید ہم بھی محترمہ کے کسی کالج کے تربیت یافتہ ہو تے تو میٹھی زبان میں بول کر جواب طلب کرتے رہتے۔۔۔۔۔۔ اس وقت تک جب تک وہ زِ چ نہ ہو جاتیں مگر ہم کیا کریں ہم اوور سیز پاکستانیوں کو یہ آزادی بالکل نہیں ہے کہ ہم پاکستان کے معاملات میں بول سکیں کیونکہ ہم نے پاکستان کا قر ض چکانے کے لئے پاکستان میں رہ کر اسے لوٹنے کو ترجیح دینے کی بجائے ہجرت کی خواری اور کر ب جھیلے اور اپنے آبائی وطن کو حسین بنانے کے لئے نہ صرف خواب دیکھے بلکہ اس کی تعبیر کے لئے آج تک اس سے کچھ مانگے بغیر اپنا حصہ ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہتے ہیں۔۔۔۔
ہم ہیں اوور سیز پاکستانی۔۔۔۔
تحریر؛روبینہ فیصل