یہ 2010 کی بات ہے جاپان کی وزارت خارجہ نے راقم الحروف کو دورہ جاپان کی دعوت دی۔اس دورے کے دوران جہاں پر بہت سارے جاپانی حکام سے ملاقات ہوئی وہیں پر جاپان کے موجودہ وزیر دفاع نوبو کشی سے ملاقات ہوئی۔ راقم الحروف اس پر یقین رکھتا ہے کہ اگر ایک بار کسی سے رابطہ قائم ہو جائے تو اس کو برقرار رہنا چاہیے۔نو بو کشی جاپان میں اور خاص طور پر اپنی سیاسی جماعت میں سلامتی کے امور پر ماہر تصور کئے جاتے ہیں۔
پھر ان کے بھائی، نانا اور نانا کے بھائی جاپان کے وزیراعظم رہے ہیں۔نوبو کشی وہ شخصیت ہے کہ جو پاکستان کی اہمیت کو جاننے اور سمجھنے کے ساتھ ساتھ اس سے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے حوالے سے ایک مثبت سوچ رکھتے ہے۔ جب کبھی بھی جاپان سے پاکستان کے تعلقات کو مضبوط کرنے کے حوالے سے کوئی بات کرتا تو میرے ذہن میں جس کا سب سے پہلے نام آتا وہ نوبوکشی ہی ہے۔ جب ان کے بھائی اور جاپان کے سابق وزیر اعظم شنزو ابے کے سفاکانہ قتل کی خبر ہوئی تو دل بہت مغموم ہوا کہ جاپان نے نا صرف کے ایک مدبر رہنما کو کھو دیا ہے بلکہ ایک ایسے شخص کی دنیا سے رخصتی ہو گئی ہے جو کہ جاپان کی اہمیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے خطے میں اس کے مثبت کردار کے لیے بہت کوشاں تھا۔ میں نے ان کے بھائی وزیر دفاع نوبو کشی سے تعزیت کی بھائی کا بھائی کی موت پر دل گرفتہ ہونا ایک فطری عمل ہے۔
مقتول سابق وزیر اعظم شینزوابے جاپان کے حکمران اتحاد میں سب سے بڑے گروپ کے سربراہ تھے۔ان کی دنیا سے رخصتی کے بعد نوبوکشی کی ذمہ داریاں مزید بڑھ گئی ہے۔جاپان ہمیشہ وطن عزیز کا دوست ملک رہا ہے اور اس دوستی کو مزید مضبوط کرنے کے لیے نوبوکشی جیسے افراد جاپان میں موجود ہیں۔
مگر وطن عزیز کو اس وقت ان حالات سے سابقہ پڑگیا ہے کہ دوستی اور تعلقات کو بہتر بنانے کی بجائے ان کو اپنے سیاسی مقاصد کی بھینٹ چڑھانے سے بھی گریز نہیں کیا جارہا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال پاک امریکہ تعلقات ہے۔ پاکستان میں عمران خان حکومت نے امریکی فوجیوں کے افغانستان سے انخلائ کے وقت ،امریکیوں کے تحفظ کی خاطر جو اقدامات کیے تھے اس سے یہ واضح ہوتا تھا کہ عمران خان حکومت امریکہ سے پاکستان کے لئے کچھ حاصل کیے بنا بھی امریکہ کی بھر پور مدد پر کمربستہ ہے۔ اور چاہتی ہیں کہ امریکہ کسی صورت بھی ناراض نہ ہو جائے۔مگر جب عمران خان حکومت کی روانگی نوشتہ دیوار بن گئی تو انہوں نے پاک امریکہ تعلقات کو داو¿ پر لگا دیا بلکہ ان تعلقات غیر معمولی طور پر نقصان پہنچایا۔ اور ایک من گھڑت کہانی پیش کردی۔
ان تعلقات میں غیر ضروری دراڑ کو رفع کرنے کی غرض سے چیف آف آرمی سٹاف جنرل باجوہ امریکہ کا دورہ کر رہے ہے۔ امید کی جارہی ہے کہ وہ اپنے اس دورے کے دوران جہاں دفاعی تعاون کے حوالے سے بات کریں گے وہیں پر ساتھ ساتھ پاکستان کے معاشی مسائل بھی امریکہ سے زیر بحث لائیں گے۔ ان کی امریکی سیکریٹری ڈیفنس سے ملاقات طے ہوچکی ہے۔ ان کی اس سے بھی زیادہ اہم ملاقاتوں کو منعقد کروایا جاسکتا ہے اور یہ ممکن بھی ہے اگر اس حوالے سے موثر طریقہ کار کو اختیار کیا جائے۔ پاکستان کو ضرورت ہے کہ وہ اپ نے امریکی انتظامیہ اور کانگریس میں نئے تعلقات بھی استوار کریں اس وقت صرف پرانے تعلقات پر ہی انحصار کیا جا رہا ہے۔
ویسے بھی امریکہ افغانستان سے روانگی کے بعد جنوبی ایشیا کو اور طریقے سے دیکھ رہا ہے۔ امریکہ اور سعودی عرب مل کر جنوبی ایشیا میں کشیدگی کو کم کرنے کی غرض سے سفارتی سطح پر بہت متحرک ہیں۔ یہ دونوں ممالک اس حوالے سے متحرک ہیں کہ وہ پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ کی تاشقند میں ملاقات کا انعقاد کروا دیں۔ اگر یہ ملاقات ہوگئی تو یہ بلاول بھٹو کا ایک امتحان ہوگا۔ کیونکہ اس سے قبل وہ جتنے ممالک کے حکام سے ملے ہیں وہ پاکستان سے مناسب تعلقات رکھنے کے خواہاں ہیں لیکن بھارت کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ اگر یہ ملاقات ہوئی تو اس ملاقات کے تسلسل میں ہی امریکہ اور سعودی عرب کی کوشش ہے کہ دسمبر میں پاکستانی اور بھارتی وزرائےاعظم کی ملاقات بھی تاشقند میں ہی ممکن بنا دی جائے۔ اگر یہ تسلسل چلا تو خطے میں اس کے مثبت اثرات کی توقع کی جاسکتی ہے۔کیونکہ میں وزیراعظم شہبازشریف سے اپنی ملاقاتوں کے حوالے سے یہ مضبوط تاثر رکھتا ہوں کہ وہ جب کسی معاملے پر غور و فکر کے بعد راۓ قایم کر لیتے ہے تو اس میں پختگی ہوتی ہے کہ پھر ادھر ادھر کی باتوں سے ان پر اثر انداز نہیں ہوا جا سکتا