ڈیپورٹیشن فلائٹ کی کہانی
فروری کے دوسرے ہفتے میں امریکہ سے ڈیپورٹ کئے جانیوالے 64پاکستانی تارکین وطن بشمول ایک خاتون کا ہاتھوں میں ہتھکڑیوں اور پاوں میں بیڑیوں کے ساتھ الپاسو (ٹیکساس ) سے اسلام آباد تک کا 35 گھنٹے کا کٹھن سفر
نیویارک (محسن ظہیر سے ) امریکی ریاست ٹیکساس کے الپاسو ائیر بیس سے 12فروری کو یو ایس امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ(یو ایس سی آئی ایس) کی چارٹر فلائٹ سے پاکستان ، انڈیا اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے سوا سو سے زائد تارکین وطن کو ڈیپورٹ (ملک بدر ) کیا گیا ۔ اس خصوصی پرواز کے قیدی نما مسافروں کے مطابق یہ ان کی زندگی کا مشکل ترین اور طویل ترین سفر تھا ۔ اس سفر کی وجہ سے انہوں نے امریکہ کہ جہاں وہ مستقل قیام کا خواب لیکر کچھ قلیل اور کچھ طویل عرصے سے آئے تھے ، کو نہ صرف ہمیشہ کے لئے چھوڑا بلکہ یہ سفر بعض قیدی مسافروں کے لئے اپنے اپنے اہل خانہ اور عزیز و اقارب سے جدائی کاسفر بھی تھا ۔
اس چارٹرڈ فلائٹ کے مسافروں میں امریکہ میں بسنے والے وہ تارکین وطن تھے کہ جن کو امیگریشن حکام نے ان کا امیگریشن سٹیٹس ختم ہونے کے بعد حراست میں لیا تھا ۔ ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے تمام مراحل مکمل کئے گئے اور ان کے حتمی ڈیپورٹیشن آرڈرز جاری کر دئیے گئے ۔ ان تارکین وطن کو امریکہ کی مختلف ریاستوں سے تحویل میں لیا گیا اور جب کی تعداد سوا سو سے زائد ہو گئی تو امیگریشن حکام نے انہیں بیک وقت چارٹرڈ فلائٹ سے ڈیپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا ۔
بارہ فروری کو روانہ ہونے والی فلائٹ میں سوار کئے جانے والے ڈیپورٹیز کا تعلق دنیا کےجنوبی ایشیائی خطے میں واقع تین مختلف ممالک پاکستان ، انڈیا اور بنگلہ دیش سے تھا ، لہٰذا انہیں ایک ساتھ ڈیپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ امریکہ سے مذکورہ تین میں سے کسی ایک ملک کا اگر براہ راست سفر کیا جائے تو فضائی سفر کو دورانیہ بالعموم14سے 18گھنٹے بنتا ہے لیکن ڈیپورٹیز (بالخصوص پاکستان سے تعلق رکھنے والے ) 37گھنٹوں میں تمام وقت ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پاو¿ں میں بیڑیاں پہنے پہنچے ۔
بارہ مئی کی ڈیپورٹیشن فلائٹ میں ڈیپورٹ کئے جانے والے ایک ڈیپورٹی(امریکہ بدر کئے جانے والے امیگرنٹ) نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بقول اس کے اپنی زندگی کے مشکل ترین 35گھنٹوں کی کہانی ان الفاظ میں سنائی ۔۔۔
بارہ مئی سے پہلے ہمارے حوالاتی مرکز سے امریکی ریاست لوزیانا لایا گیا ۔ وہاں قیام کے بعد امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر الپاسو لایا گیا جہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ یہاں امریکہ کے مختلف حوالاتی مراکز سے پاکستان ، انڈیا اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن (جنہیں ڈیپورٹ کیا جانا مقصود تھا) کو اکٹھا کیا گیا ۔جب ہم الپاسو ائیر پورٹ پر پہنچے تو وہاں بے تحاشہ سیکورٹی موجود تھی ۔ ال پاسو میں چارٹرڈ فلائٹ پر سوار کرنے سے قبل تمام قیدیوں کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگائی گئیں اوربشمول ایک خاتون قیدی (جس کا تعلق پاکستان سے تھا ) ،سب کے پاو¿ں میں بیڑیاں ڈالی گئیں ۔اس حالت میں سب کو جہاز پر سوار کیا گیا ۔
الپاسو سے ڈیپورٹیشن فلائٹ پہلے مرحلے میںامریکہ کی ایک ریاست ہوائی گئی جہاں کچھ دیر قیام کے بعد فلائٹ طویل پرواز کے بعد جاپان کے شہر گوام میں اتری۔ وہاں پر فلائٹ میں ایندھن بھرا کیا ۔ گوام (جاپان ) سے فلائٹ کی پہلی منزل ڈھاکہ (بنگلہ دیش تھی ) جہاں بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن جن کی تعداد بیس سے زائد تھی ، کو اتار کر حکام کے حوالے کیا گیا ۔
ڈھاکہ کے بعد ڈیپورٹیشن فلائٹ کی اگلی منزل دہلی (انڈیا ) تھی جہاں پر انڈیا سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن جن کی تعداد پچیس کے لگ بھگ تھی ، کو اتار ااور حکام کے حوالے کیا گیا ۔ ڈھاکہ اور دہلی کے بعد فلائٹ کی تیسری و آخری منزل اسلا م آباد (پاکستان ) تھی جہاں پر پاکستان سے تعلق رکھنے والے کل 64تارکین وطن (ڈیپورٹیز) جن میں سے ایک خاتون بھی تھی کو اتار کر ایف آئی اے سمیت پاکستانی امیگریشن حکام کے حوالے کیا گیا ۔“
ڈیپورٹیشن فلائٹ کے پاکستانی قیدیوں کے لئے یہ سفرکل 35گھنٹوں کا تھا ۔ فلائٹ میں موجود امریکہ بدر کئے جانے والے قیدی نے دوران پرواز احوال بتاتے ہوئے کہا کہ الپاسو سے لیکر ڈھاکہ ، ڈھاکہ سے لیکر نیودہلی اور نیودہلی سے لیکر اسلام آباد تک کے سفر میں فلائٹ پر سوار کسی بھی قیدی کی دوران سفر ایک لمحہ کے لئے ہتھکڑی یا پاو¿ں میں ڈالی جانیوالی بیڑیاں کھولی نہیں گئیں ۔ہتھکڑیوں کو بھی کمر کے ساتھ بندھی ایک زنجیر کے ساتھ باندھا گیا تھا ، جس کی وجہ سے ہتھکڑیوں کے ساتھ دونوں ہاتھوں کی نقل و حرکت بھی محدود تھی ۔ اسی حالت میں تمام وقت گذارنا پڑا اور اسی حالت میں کھانا بھی کھانا پڑتا تھا اور باتھ روم بھی جانا پڑتا تھا ۔
ڈیپورٹیشن فلائٹ کے قیدی نے سفر میں جن اچھی باتوں کا ذکر کیا، ان کے مطابق فلائٹ کے دوران دیا جانیوالا کھانا اچھا تھا، نشستیں اور فلائٹ آرام دہ تھی ۔ دوران پرواز جہاز میں مووی بھی چل رہی تھیں ، بعض قیدی موویز دیکھ کر جبکہ بعض نے سو کر اپنا سفر کاٹا ۔ امریکہ سے ہر قیدی کو اپنے ساتھ صرف کپڑے لانے کی اجازت دی گئی ۔ فلائٹ میں کسی بھی میڈیکل صورتحال سے نمٹنے کے لئے نرسز موجود تھیں اور بعض قیدی کہ جن کو ادویات کی ضرورت تھی ، کو ان کی ضروری ادویات بھی ساتھ دی گئی تھیں ۔دوران پرواز قیدی مسافر ایک دوسرے کے ساتھ گپ شپ بھی کرتے رہے اور امریکہ میں بیتے دن یاد کرنے کے ساتھ امریکہ بدری کے تجربے پر تبادلہ خیال کرتے رہے ۔ ڈیپورٹیشن فلائٹ کے 35گھنٹے کے سفر کی رو دادا سنانے والے قیدی کی آواز ،سفر کا احوال بتاتے ہوئے روندھ گئی۔
پاکستانی قیدیوں کو اسلام آباد ائیرپورٹ پر ایف آئی اے اور امیگریشن حکام کے حوالے کیا گیا جہاں سے ان کو ایف آئی والے بس میں بٹھاکر ائیرپورٹ پر موجود اپنے دفتر میں لے آئے ، وہاں سب کو لائین میں کھڑا کیا ایک ایک کا نام بولاکر اس کی حاضری لگائی گئی ۔ کل 64میں سے تقریباً پندرہ سولہ افراد کو کو الگ کمرے میں بند کردیاجہاں انہیں بتایا گیا کہ اب انہیں سیل میں بھیجا جائیگا ۔ استفسار پر بتایا گیا کہ سیل سے مراد ان کی حوالات ہے ۔ یہ وہ پاکستانی تھے کہ جن کی سفری دستاویز ات اور اس کا ریکارڈ ان کو یا تو مل نہیں رہا تھا یا دستیاب نہیں تھا ۔ ان ملک بدر کئے جانے والے پاکستانیوں نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ انہیں امریکہ سے ان کی سفری دستاویز ات مکمل ہونے کے بعد ڈیپورٹ کیا گیا اور وہ حیران تھے کہ جب تمام کاغذی کاروائی مکمل کرنے کے بعد انہیں ڈیپورٹ کیا گیا تو ایف آئی اے والوں نے پاکستان پہنچنے کے بعد ان کی پہلے سے جاری مشکلات کو کم کیوں نہیں کیا ؟؟؟
واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد امریکہ میں امیگریشن حکام امیگریشن قوانین پر عملدرامد کو ہر آنیوالے دن سخت سے سخت تر بنا رہے ہیں جس کے نتیجے میں امریکہ میں موجود غیر قانونی تارکین وطن بالخصوص ایسے تارکین وطن کہ جو زیر تحویل ہیں ، کی ڈیپورٹیشن کے پراسیس کو تیز سے تیز تر کرکے ان کی امریکہ بدری کو یقینی بنایا جا رہا ہے ۔