واشنگٹن میں پاکستانی کمیونٹی کنونشن ،ابھی اور کام کرنے کی ضرورت ہے
اغیرہ وغیرہ ..... وقار علی خان (لاس اینجلس)
کمیونٹی اور یوتھ کنونشن کا آغاز جناب سفیر پاکستان امریکہ جلیل عباس جیلانی صاحب نے اپنے دور میں کیا تھا ۔ اب اس کو سفیر اعزاز احمد چوہدری نے متحرک بنایا ہے اور اس کنونشن میں یوتھ کو شامل کرکے قابل قدر کام کیا ہے ۔سابقہ سفیر امریکہ کی کوشش تھی کہ امریکہ میں آباد پاکستانیوں کو متحرک کیا جائے اور امریکہ سیاست دانوں، ارکان کانگریس ،سینٹرز سے تعلقات کو بروئے کار لاتے ہوئے پاکستان کی شناخت و امیج کو بہتر بنایا جائے ۔
واشنگٹن میں پاکستان مخالف لابی گروپ کی کوشش ہے کہ پاکستان کے خلاف ایک دیوار کھڑی کی جائے تا کہ پاکستان کو وہ مراعات اور وہ سہولتیں نہ مل سکیں جن سے پاکستان اپنی معاشی ترقی میں بروئے کار لا سکے۔ یہ قوتیں کئی دہائیوں سے برسرپیکار ہیں اور ان کو کمزور کرنے اور غیر موثر کرنے کے لئے ہمارے پاس نہ تو ایسے مستحکم ادارے ہیں اور نہ ہی لابنگ گروپ ہیں جو سینہ تان کر ان کے سامنے کھڑے ہوں۔اور جو ہیں ،وہ تتر بتر ہیں یا پھر ان کو گروپ میں تقسیم کر کے ختم کردیاگیا اور کچھ قونصل جنرل کے منظور نظر ہو کر محدود ہو گئے ہیں ۔15 سے بیس سال پہلے پالیسی بنائی گئی جو ڈپٹی مشن محمد صادق کے زیر نگرانی چلتی رہی اور وہ ایک امیروں کا کلب بنا۔
بگ بوائز صرف اس کے ممبرز تھی اورفیض الرحمان اس کے ڈائریکٹر تھے ۔بعد میں ان کو برطرف کر کے دوسرے شخص کو لایا گیا ہے ۔ پالیسی زوال پذیر ہو گئی اور دوبارہ مکمل نے ہو سکی۔ گو کہ آئیڈیا اچھا تھا لیکن محدود کوشش اور منظور نظر افراد کے انتخاب کی وجہ سے کامیاب نہ ہوسکا۔ واشنگٹن ڈی سی کے مصدق چغتائی نے سر توڑ کوشش کی لیکن کہ وہ اس تنظیم PALCکو دوبارہ فعال بنانے میں ناکام رہے۔ پالیسی جو آرگنائزیشن عرصہ دراز سے کام کررہی تھیں ، پالسی کی وجہ سے وہ منظر سے ہٹ گئیں اور ان کو توجہ قابل ذکر نہ دی گئی ۔”پالسی “کی افادیت ،اہمیت اور جنرل مشرف سے بگ بوائز کی قربت نے کمیونٹی کی اہم و سرگرم تنظیموں کو نظر اندار کر دیا اور وہ مایوس اور احساس کمتری کا شکار ہو کر پیچھے پٹ گئیں ۔
اس کے بعد کئی اداروں نے کوشش کی لیکن وہ ون مین شو ہونے کے ناطے فیل ہوگئیں اور کبھی جانبر نہ ہو سکی اور نہ ہی ہمارے حکومتی اداروں نے ان کی آبیاری کی۔ آج اکا دکا اپنے بل بوتے پر کام کر رہی ہیں۔
شکاگومیں ایسا کوئی سیاسی ایکشن گروپ نہیں ہے جو کہ متحدہ طور پر کام کرے بلکہ وہاں منیر چوہدری ، ڈاکٹر طارق بٹ اور ارائیں اپنے اپنے طور پر کام کرتے ہیں ۔
اپنا ڈاکٹروں کی تنظیم ہے مگر وہ اپنے آپ میں ہی مگن ہے۔ ان کا رخ سماجی فلاحی اور پاکستانی ڈاکٹروں کو بلانے اور یہاں پر جگہ دلانے کی طرف مبذول ہے لیکن انفرادی طور پر بہت کچھ کرتے ہیں۔ اپنا کا ایک سیاسی ونگ پاک پیک تھا لیکن اس کو اپنا سے الگ کر دیا گیا ہے ۔
نیویارک سیاست کا گڑھ ہے جہاں لا تعداد آرگنائزیشن برسر پیکار ہیں ۔ نیویارک وہ واحد شہر ہے جہاں تنظیمیں باغ و بہار نظر آتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی ٹکریوں میں بٹی پاکستان کی آواز بلند رکھتی ہیں ،احتجاجی مظاہروں وغیرہ میں پیش پیش ہوتی ہیں ۔ دوسری طرف ان میں سے کئی کو سیاسی انجکشن لگے ہوئے ہیں۔پیپلز پارٹی ،نون لیگ ، تحریک انصاف کے زیر اثر ہیں، کوئی قومی یکجہتی والی بات نہیںہے ۔
انڈین کمیونٹی ، ہماری کمیونٹی سے الٹ ہے ۔ ان کی یہاں بھارتی سیاست میں دلچسپی اور سرگرمیوں کم ہیں ۔ وہ ایک پلیٹ فارم پرانڈیا کے لئے کام اور اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتی ہے ۔
نیویارک میں APPACتنظیم کے بانی چئیرمین ڈاکٹر اعجاز احمد نہایت متحرک اور مثبت انداز میں اپنا کام کررہے ہیں ۔ وہ پاکستانی کمیونٹی کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرکے اسے کے اجتماعی کردار کو یقینی بنانے کی کوشش میں ہیں جو کہ ایک احسن اقدام ہے اور پوری کمیونٹی کو ان ک ا ساتھ دینا چاہئیے ۔
لاس اینجلس میں پاکستان چیمبر آف کامرس نہایت ہی موثر طریقے سے کام کرتی ہے۔ طاہر جاوید، جاوید انور، ڈاکٹر آصف ،ڈاکٹرقدیر اور سعیدشیخ نہایت اعلیٰ کام کر رہے ہیں۔ لیکن جو کام پاکستانی سفارتخانے والے چاہتے ہیں وہ کوئی نہیں کر رہا ہے۔ اس طرح لاس اینجلس ، سان فرانسسکو، اٹلانٹا میں بھی کوئی مستحکم پولیٹیکل ایکشن کمیٹی نہیں ہے۔
واشنگٹن ڈی سی میں ہونے والا کنونشن ایک کامیاب کوشش اور مثبت ایکشن تھا جس میں سفیر پاکستان اعزاز چودھری نے خود کم اور لوگوں کو زیادہ سے زیادہ سننے کی ہر ممکن کوشش کی ۔کنونشن میں سے زیادہ تر لوگ واشنگٹن ڈی سی اور گرد و نواح کی ریاستوں سے تھے اور امریکہ بھر سے لوگ پہنچنے سے قاصر رہے۔
اس کی وجوہات وقت کی کمی اور کاسٹ ہوسکتی ہے۔ یہ بہتر ہوتا ہے کہ نئے لوگوں کو موقع دیا جاتا اورہر سیشن پر بات چیت سے پہلے موضوع پر ریسرچ کی ہوئی ہوتی ۔
مودبانہ گزارش ہے کہ تمام اسٹیٹ سے ایک ایک نمائندہ لیاجائے وہ اپنے اپنے حلقے سے لوگوں کو میرٹ کی بنیاد پر کامیابی وکامرانی کی بنیاد پر بنا کسی منظور نظری اور سفارش کے بنا حقیقی لوگوں کو سامنے لائے۔
یوتھ پینل اور کمیونٹی کنونشن سفارتخانے کی حقیقی طور پر کامیاب کوشش رہی اور کمیونٹی کو متحرک کرنے میں سنگ میل کی حیثیت رکھے گا۔ لیکن اس کنونشن کو مزید کامیاب بنانے کےلئے کمیونٹی قائدین اور ارکان کی اس میں زیادہ سے زیادہ شمولیت ضروری ہے ۔
قونصل جنرل، سفارتخانے کی شہ رگ ہوتے ہیں لیکن اگر ہم کمیونٹی سے ایک لیڈر لیکر انکے تعاون اور قونصل جنرل کے تعاون سے یہ کنونشن مستقبل میں نہایت ہی کامیاب مستقل فیچر ہو سکتا ہے ۔
اس اس کنونشن سے پھر ایک لابنگ گروپ تشکیل دیا جائے جو کام کرے اور مسلسل سفارتخانے سے رابطے میں رہے۔
ایک شکایت ہے کہ ہمیشہ میڈیا پینل واشنگٹن ڈی سی سے کیوں بنتا ہے۔ نیویارک پینل کو کیوں نظر انداز کیا گیا۔ ہمیں میڈیا کو پہلے توجہ دینی چاہئے ایک اور کمی تھی وہاں واشنگٹن کے پاکستانی میڈیا کے علاوہ دیگر شہروں کا کمیونٹی میڈیا نہیں تھا۔
میں وطن عزیز کو ترقی کی راہ پر گامزن دیکھناچاہتا ہوں۔ انشاءاللہ تمام رکاوٹیں دور ہوں گی اور پاکستان ترقی کرے گا۔پاک امریکہ تعلقات میں غلط فہمیاں بھی دور ہوں گی اور دونوں ملک ایک بار پھر ملکر کام کریں گے ۔