رہنمائی کا عمل امریکی اور پاکستانی معاشرے میں ختم ہو چکا ہے جس کی وجہ سے جنریشن گیپ پیدا ہو رہا ہے
نیویارک میں کمیونٹی کے بڑوں اور یوتھ کے درمیان دلچسپ مجلس مذاکرہ
نیویارک (اردو نیوز) پاکستان امریکن یوتھ آرگنائزیشن کے زیراہتمام “جنریشن گیپ “کے موضوع پر ایک خوبصورت مذاکرہ ہوا جس میں پاکستانی امریکن کمیونٹی کے جواں سال ارکان اور ان کے والدین سمیت سینئر ارکان کے درمیان موجود سوچ و فکر، روئیوں اور روز مرہ زندگی کے معاملات کو مختلف انداز میں دیکھنے کے حوالے سے تفصیلی بات چیت ہوئی جس میں مسائل کی نشاندہی کی گئی اور ان کے حل تجویز کئے گئے ۔
جس میں بڑی تعداد میں کمیونٹی معززین اور پاکستانی امریکن کمیونٹی کی نامور شخصیات معروف شاعر، ادیب و دانشور ناصر علی سید ، پی ٹی وی پشاور کے سابق جنرل مینیجر و معروف دانشور عتیق احمد صدیقی ، پاکستان یو ایس فورم کے صدر و ممتاز شاعر و دانشور ڈاکٹر محمد شفیق ، معروف کاروباری و سماجی شخصیت ، سوشل ورکر اور اپنا کمیونٹی سنٹر کے سربراہ پرویز صدیقی ،ماہر تعلیم و لسانیات عالیہ صدیقہ ،سارجنٹ کمیونٹی افئیرز نیویارک پولیس ڈیپارٹمنٹ ضیغم عباس نے شرکت کی ۔ یہ شخصیات مجلس مذاکرہ کے پینل کے ماہرین میں بھی شامل تھے ۔
مجلس مذاکرہ میں پاکستانی امریکن یوتھ آرگنائزیشن کے چئیرمین محمد حسین ، پریذیڈنٹ وکیل احمد، وائس پریذیڈنٹ جاد شبیر ، جنرل سیکرٹری ہمایوں ریاض ، خزانچی عدنان بھٹی ، ایگزیکٹو ممبرز نعیم مرزا، منصور شیخ ، ارسلان محبوب ، اویس بھٹی ، کنور نبیل احمد، مجید راو¿ اور اجمل چوہدری سمیت آرگنائزیشن کے دیگر ارکان شریک ہوئے ۔جبکہ فلم ،ٹی وی اور سٹیج کے نامور فنکار عابد کشمیری المعروف ”گلو بادشاہ“ نے خصوصی شرکت کی ۔
مجلس مذاکرہ کے بعد مشاعرہ بھی منعقد ہوا جس میں معروف مقامی شعراءکرام میں ڈاکٹر عبدالرحمان عبد، عامر بیگ ، اخلاق احمد نے شرکت کی اور اپنا کلام بھی سنایا۔ڈاکٹر شفیق نے معروف شاعر احمد فراز مرحوم کی زندگی بالخصوص طنز و مزاح کے حوالے سے ان کے کلام اور زندگی کے اہم پہلووں پر دلچسپ انداز میں روشنی ڈالی ۔
پاکستان امریکن یوتھ آرگنائزیشن کی اس تقریب میں کمیونٹی کی مقامی اہم شخصیات اور ارکان چوہدری اسلم ڈھلوں ، راو شوکت علی ، شازیہ وٹو ، ارم ،عثمان ، شاہد کامریڈ ، طاہر سندھو، راجہ رزاق، جیمز سپرئین،ڈاکٹر شاہد، وسیم سید ، لیاقت علی، یوسف خان سمیت دیگر نے شرکت کی ۔
تقریب کے نظامت کے فرائض آرگنائزیشن کے چئیرمین محمدحسین نے کی ۔انہوں نے پروگرام کے اغراض و مقاصد بیان کئے۔ اس موقع پر جواد شبیر نے تنظیم کا تعارف کرایا اور اس کی کارکردگی پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے 23مارچ کے پروگرام کے حوالے سے بھی لوگوں کو اطلاع دی اور بتایا کہ حسب روایت اس سال بھی پاکستانی امریکن یوتھ آرگنائزیشن کے زیر اہتمام یوم قرار داد پاکستان جوش و جذبے سے منایا جائیگا۔
مجلس مذاکرہ سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان ٹیلیویژن کے مشہور براڈ کاسٹر عتیق صدیقی نے کہا کہ امریکی معاشرہ میں یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ نوجوان نسل کو رہنمائی کہاں سے ملنی چاہئے۔رہنمائی کا عمل امریکی اور پاکستانی معاشرے میں ختم ہو چکا ہے جس کی وجہ سے جنریشن گیپ پیدا ہو رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ نوجوان نسل کہاں جائے۔ اوپیاڈ ایک ڈرگ ہے جس کا نوجوان تیزی سے شکار ہورہے ہیں۔ سوال اتنا اہم ہے کہ نوجوان کو کیسے زندگی گذارنی چاہئیے۔ جواں نسل متجسس ہے۔ اگر مذہب نے معاشرے کی اصلاح کرنی ہے تو کیا ایسا ہو رہا ہے ؟ یہ بھی ایک سوال ہے۔ اگر گھر میں گیپ ہوگا تو خلا بڑھے گا۔ گھر سے ایک دوسرے کو سمجھیں پھر آگے بڑھیں، جہد مسلسل کی اور مکالمہ کی ضرورت ہے۔ صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا جائے۔
ناصر علی سید نے کہا کہ ہمارے درمیان مکالمہ رک گیا ہے۔ مایوسی کی بات بھی نہیں ہے۔ بہتر زندگی کےلئے کسی مفکر کی ضرورت نہیں بہت ہے کہ ٹریفک سائن سیکھ لیں – وہ آپ کو صحیح راستہ بتاتا ہے اوررہنمائی کرتا ہے۔ بچوں کی زندگی کے راستے میں رکاوٹ نہیں بننا چاہئے۔ اگر چاروں طرف نظر ڈالیں تو پرندے بھی ایک خاص حد تک ساتھ رہتے ہیں پھر وہ اپنا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ آگے بڑھنے والے بچوں کے راستہ میں رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہئے، دنیا کا ہم شکل بننے کی بجائے وہ راستہ اختیار کرنا چاہئے کہ جس میں آپ اپنا بہتر حال اختیار کریں۔
عالیہ صدیقہ نے کہا کہ مذہب کے ساتھ پوری دنیا کی اخلاقیات بھی سکھانا چاہئے‘ بچوں کو اپنی پراپرٹی سمجھنے کی بجائے ان کی پرورش کی ذمہ داریاں بطریق احسن نبھائیں۔ بچوں اور والدین میں خلیج ہے اور رہے
گی لیکن اس کو کم کرنے کی کوشش کریں۔ آج کے بچے جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور میں رہتے ہیں۔ بچوں پر رولز کے اطلاق کی بجائے برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بچوں کو سوال کرنے کی اجازت دینی چاہئے۔ اگر بچے کوئی کام اچھا کرتے ہیں تو ان کی پیروی شروع کردیں۔
ڈاکٹر شفیق نے کہا کہ میں نے اپنے بچوں سے کمپیوٹر سیکھا۔ میں ان سے تعلق کو برقرار رکھتا ہوں۔ اس بات پر بھی انحصار ہے کہ والدین کتنا جانتے ہیں۔ سکول میں بہت کچھ پڑھاتے ہیں۔ میں دیکھتا ہوں کیا بچوں کا والدین گھر ہر ٹیک کئیر کرتے ہیں۔