انسانی حقوق کے عالمی منشورکا تاریخی پس منظر
2018 میں انسانی حقوق کے عالمی منشور یعنی یونیورسل ڈیکلریشنUDHR کے منظور کئے جانے کے ستر سال پورے ہو رہے ہیں ٹھیک ستر سال پہلے دس دسمبر1948 کو اقوام متحدہ نے انسانی حقوق کے یونیورسل ڈیکلریشن کوایک قرار داد نمبر217A کے تحت منظور کیا تھا اسی لئے ہر سال دس دسمبر کو انسانی حقوق کا عالمی دن اسی کی یاد میں منایا جاتا ہے اور دنیا بھر میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں کی بھرپور مذمت کی جاتی ہے اور انسانی حقوق کے تحفظ و اس کی اہمیت پر سیمینارز منعقد کئے جاتے ہیں۔ اس ڈیکلریشن میں بنیادی انسانی حقوق اور آزادیوں کی واضع نشاندہی کی گئی ہے اور یہ تیس آرٹیکلز پر مشتمل ہے یہ اس وقت دنیا کی سب سے غیر معمولی اور اہم ترین دستاویزات ہیں تادم تحریر انسانی حقوق کے عالمی منشور کا 508زبانوں میں اس کا ترجمعہ ہو چکا ہے۔1999سب سے زیادہ زبانوں میں ترجمے کا ورلڈ ریکارڈ قائم کیا تھا جب کہ2009 میںردنیا کی سب سے زیادہ زبانوں میں ترجمعہ کے ساتھ پڑھی جانے والی دستاویزات کے طور پر اس کا اندراج گنیز بک میں کیا گیا اور اس کوعالمی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔انسانی حقوق کے عالمی منشور کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ یہ انگریزی، سپینش اور پرتگالی زبانوں میں اشاروں کی زبان میں بھی یوٹیوب پر دستیاب ہے۔او ایچ سی ایچ آرOHCHRکا دفتر سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں موجود ہے جہاں دنیا بھر کے ممالک میں ہونے والی انسانی حقوق کی پاسداری کے لئے الفاظوں، اور تقریروں کے ذریعے جنگ لڑی جاتی ہے۔ اس بارے مزید تفصیلات اداے کی ویب سائٹ www.ohchr.org سے حاصل کی جاسکتی ہیں
انسانی حقوق کے عالمی منشور کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کے اندر تین اہم باتوں پر زور دیا گیا ہے ان میں ایک فرد کی آزادی اور اس کی حفاظت، دوسرا عدل و انصاف اور تیسرا مساوات۔اقوام متحدہ کے ہر رکن ملک کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس عالمی منشورکا احترام کرے اور اس کی روشنی میں اپنے ملک کے شہریوں کو حقوق کی فراہمی کو یقینی بنائے ان حقوق میں جینے کا حق، امتیاز سے پاک مساوات اور برابری کا حق، اظہار رائے کی آزادی، معاشی، سماجی اورثقافتی حقوق شامل ہیں اس کو ماننا اور اس پر عمل کرنا ہر اس ملک کے لئے لازمی ہے جو اقوام متحدہ کا ممبر بن چکا ہو ۔ اس کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ اور اس کی تشکیل کیسے ممکن ہوئی اور کب؟ اس بارے تاریخی پس منظر ذیل کی سطروں میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے
پس منظر۔۔۔دوسری جنگ عظیم نے کروڑوں انسانوں سے آباد شہروں اور ملکوں کو قبرستانوں اور کھنڈرات میں تبدیل کردیا تھا اوران ہولناکیوں نے انسانی ذہن اور سوچ پر گہرے اثرات مرتب کئے تھے اپنے ہی ہاتھوں ہنستے کھیلتے شہروں کی آبادیوں کو جس طرح تباہ و برباد کیا گیاانسان ہی انسان کے لئے درندہ بن چکا تھا اس کی مثال تاریخ انسانی میں ملنی مشکل ہے انسانی تاریخ کی سب سے زیادہ ہولناک جنگ کے بعد بالاخر انسان یہ حقیقت تسلیم کرنے پر مجبور ہوا کہ جنگ کسی بھی مسئلہ کا حل نہیں ہوا کرتی بلکہ جنگ مزید مسائل کو جنم دیتی ہے جنگ عظیم اور اور دوم دونوں ہی اس کی بدترین مثالیں ہیں اوربالاخر انسان کو امن کے جھنڈے تلے ہی پناہ لینی پڑی اور ایک پرامن اور مستحکم اور خوشحال دنیا کے لئے مشترکہ جدوجہد کے لئے ایک عالمی ادارے کی ضرورت کو محسوس کیا گیا اور اسی کے نتیجہ میں اقوام متحدہ کا ادارہ معرض وجود میں آیا اس ادارہ کے قیام کے بنیادی مقاصد میں ایک انسانی حقوق کا تحفظ اور اس کا فروغ بھی ہے۔2018 میں اس کے ستر سال پورے ہونے پر اقوام متحدہ اس سال کو منا رہی ہے تاکہ آج امن اور انسان کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے اور انسانی حقوق کی پامالیوں کو روکا جائے
انسانی حقوق کیا ہیں؟ انسانی حقوق آزادی اور حقوق کا وہ نظریہ ہے جس کے تمام انسان مساوی طور پر حقدار ہوتے ہیں اور اس میں کسی رنگ، نسل،قوم، زبان ، عقیدے کا امتیاز نہیں ہوتا ۔ اس عالمگیر اصول کے تحت کرہ ارض پر بسنے والے تمام انسان یکساں طور پر بنیادی ضروریات اور سہولیات کے حقدار ہوتے ہیں۔ یہ ہر معاشرے کی ضرورت رہے ہیں اور ہر دور میں ان کے لئے آوازیں بلند ہوتی رہی ہیں ان حقوق کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ وہ خطہ یا معاشرہ اخلاقیات، انصاف مثبت روایات اور دیگر سماجی عوامل کے ساتھ مضبوط بنیادوں پر استوار ہو۔انسانی حقوق کے عالمی منشور کی پہلی دفعہ ہی انسانی حقوق کی تعریف کرتی ہے پہلے آرٹیکل نمبر ایک کے مطابق۔تمام انسان آزادی اور حقوق و عزت کے اعتبار سے برابر پیدا ہوئے ہیں انہیں ضمیر اور عقل ودیعت ہوئی ہے اس لئے انہیں ایک دوسرے کے ساتھ بھائی چارے کا سلوک کرنا چاہیے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ ان انسانی حقوق میں شہری حقوق کی بھی شامل ہیں جن کی درج ذیل شکلیں ہیں ، زندگی کے حقوق،آزادی کے حقوق، جائیداد کے حقوق، بحث و مباحثہ کے حقوق کام کرنے کے حقوق وغیرہ۔ اسی طرح سیاسی حقوق کا بھی تعین کیا گیا ہے جن میں کچھ یہ ہیں۔ ووٹ کا حق ، الیکشن کا حق ، پبلک افئیر کے حقوق، سیاسی افیئرز کے حقوق وغیرہ۔1966میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اتفاق رائے سے انسانی حقوق کے عالمی بل کے موخرالذکردو معاہدوں کو منظور کیا جس کے بعد سے یہ بل انسانی حقوق کی ایک مکمل دستاویز کی حثیت رکھتا ہے۔ پاکستان بھی آزادی کے سال یعنی تیس ستمبر1947سے اقوام متحدہ کا رکن ہے
ڈرافٹنگ کمیٹی کے اجلاس۔۔انسانی حقوق کے عالمی منشور کے ڈرافٹ کرنے والی کمیٹی کے دو بڑے سیشن منعقد ہوئے تھے جن میں تبدلیاں بھی شامل تھیں عالمی منشور کا پہلا ڈرافٹ سیکریٹریٹ نے تیار کیا تھا اس کو انٹر نیشنل بل آف رائٹس کا نام دیا گیا تھا اور اس میں48
آرٹیکلز شامل تھے۔ کمیٹی کا پہلا سیشن9جون سے25جون تک نیو یارک میں منعقد ہوا تھا جب کہ دوسرا اور آخری سیشن3مئی سے21مئی تک نیویارک میں منعقد ہوا جس میں فائنل ڈرافٹ بھی تیار کیا گیا تھا ان دو بڑے سیشنوں کے درمیان انیس اجلاسات منعقد ہوئے جن میں ضروری تبدیلیاں کی جاتی رہیں
انسانی حقوق کا آفاقی منشور کیا ہے؟ یونیورسل ڈیکلریشن Universal Declaration of Human Rights اقوام متحدہ کی تصدیق شدہ دستاویزات اور قرارداد ہے جو پیرس میں 10دسمبر1948کو بذریعہ قرار داد نمبرA217 منظور کی گئی۔دسمبر1950کو جنرل اسمبلی کے 317ویں اجلاس میں قرار داد نمبر V 423پیش کی گئی جس کے تحت تمام رکن ممالک کو ہر سال دس دسمبر کو انسانی حقوق کا دن منانے کی دعوت دی گئی تھی ۔آج یہ دنیا کی508 زبانوں اور لہجوں میں تراجم کے ساتھ پڑھی جانے والی دستاویزات کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے فورا بعد انسانی حقوق کی اہمیت اور ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اس پر پہلی بار اتفاق رائے پیدا کیا گیا اور یہ تسلیم کیا گیا کہ انسانی حقوق ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور بلا امتیاز ہر انسان کو ملنے چاہیے۔ اس قرارداد میں کل تیس شقیں موجود ہیں جو بین الاقوامی معاہدوں، علاقائی انسانی حقوق کے آلات، قومی و عالمی دستوروں اور قوانین سے اخد کی گئیں تھیں ان میںبنیادی انسانی حقوق اور انسانی آزادیوں کا تعین کیا گیا ہے۔ مسودے میں یہ بات واضع الفاظ میں لکھے ہوئے ہیں کہ اقوام متحدہ کے ہر رکن ملک کو اس عالمی منشور انسانی حقوق کا احترام کرنا ہوگا اور اپنے اپنے ملک کے شہریوں کو ان کے تمام حقوق بلا امتیاز دینا ہونگے۔اس کی منظوری کے وقت اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی تعداد 58 تھی جبک کسی ملک نے اس کی مخالفت نہیں کی تھی 48 ممالک نے اس منشور کی حمایت کی تھی اور دستخط کئے تھے ان میں پاکستان بھارت اور افغانستان بھی شامل تھے دو ممالک ننے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھاجبکہ آٹھ ممالک نے لاتعلقی اختیار کی تھی ان میں سعودی عرب بھی شامل تھا جب کہ دیگر ممالک میں جنوبی افریقہ، یوکرائن ، یو ایس ایس آر، یوگو سلاویہ اور چیکو سلاواکیہ شامل تھے
انسانی حقوق کا آفاقی منشور کب لکھا گیا تھا؟انسانی حقوق کا عالمگیر منشور جو آفاقی منشور کے نام سے بھی لکھا اور پکارا جاتا ہے اس کا ابتدائی ڈرافٹ1947اور اختتام1948کے دوران ایک اقوام متحدہ کی ایک کمیٹی نے تیار کیا تھا اس کے بعد اس میں مزید بحث و مباحثہ اور ترامیم جنرل اسمبلی اور اکنامک اینڈ سوشل کونسل کی طرف سے کی گئیں جو کہ اقوام متحدہ ہی کے اہم ذیلی ادارے ہیں
کمیٹی کے آراکین ممالک۔ انسانی حقوق کے آفاقی منشور کو تیار کرنے والی کمیٹی 9 ممالک کے قابل ترین افراد پر مشتمل تھی جس میں امریکہ، چین ، لبنان ، آسٹریلیا ، چلی ، فرانس ، یو ایس ایس آر، برطانیہ اور کنیڈا شامل تھے۔ امریکہ سے تعلق رکھنے والیEleanor Rooseveltاس کمیٹی کی صدر تھیں
جنرل اسمبلی نے جب اس تاریخی بل کی منظوری دی تو ساتھ ہی اس کا اعلان عام کیا اور اس وقت کے تمام ممبر رکن ممالک کو تاکید کی گئی کہ وہ بھی اپنے اپنے ملک میں اس کا اعلان عام کریں اور اس کی نشرو اشاعت میں حصہ لیں مثلا یہ کہ اسے نمایاں مقامات پر آویزاں کیا جائے اور خاص طور پر اسکولوں اور تعلیمی اداروں میں اسے پڑھ کر سنایا جائے اور اس کی تفصیلات واضع کی جائیں اور اس ضمن میں کسی ملک یا علاقے کی سیاسی حثیت کے لحاظ سے کوئی امتیاز نہ برتا جائے۔
جن جن ممالک میں اس پر عمل درآمد کیا گیا وہاں نہ صرف انسانی حقوق کی صورتحال بہتر ہے بلکہ وہاں سماجی ،سیاسی اور معاشرتی طور بھی بہت استحکام ہے۔پاکستان ، ایران اور سعودی عرب اسلامی دنیا کے اہم ترین ممالک میں شمار ہوتے ہیں ان میں سعودی عرب واحد اسلامی ملک ہے جس نے انسانی حقوق کے عالمی منشور کو ماننے سے انکار کیا ہوا ہے جب کہ باقی ممالک میں انسانی حقوق کی صورتحال تسلی بخش نہیں ہے جن معاشروں میں طبقاتی تقسیم ، مذہبی منافرت،عدم رواداری ،عدم مساوات اور نا انصافی اپنے عروج پر ہو وہاں ہر قسم کی ترقی اور امن ایک خواب بن کر رہ جاتا ہے۔2015سے لے کر2030تک اقوام متحدہ نے پائیدار ترقی کے سترہ17اہداف مقرر کئے ہوئے ہیں جن میں بھوک کا خاتمہ، انسداد غربت، معیاری تعلیم،معیاری صحت کی سہولیات، صنفی مساوات، صنعتی ترقی،صاف پانی اور صفائی،سستی اور آلودگی سے پاک بجلی، معقول روزگار، امن اور تعاون جیسے اہداف شامل ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ سبھی پاکستان کی اہم اور بنیادی ضروریات ہیں اور پاکستان ان سبھی اہداف میں بہت پیچھے ہے اگر ملک کے اندر سیاسی استحکام ہو اور ملک کے اندر انسانی حقوق کی صورتحال بہتر ہو تو عالمی تعاون سے بہت فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔